Monday 12 December 2016

"میلاد- اور ہم بدعتی"
 ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں پر ہمیں اپنے زاتی کام اور اقوال کے بارے میں  یہی خطرہ لایک رہتا ہے کہ  دوسرے کیا سوچیں گے دوسرے کیا کہیں گے۔اس کشمکش میں ہماری پوری زندگی اس خوشی کے ساتھ گزر رہی ہوتی ہے کہ ہم ایک ازاد معاشرے میں جی رہے ہیں لیکن حقائق بلکل اس کے بر عکس ہوتے ہیں ۔ہم دراصل زندگی گزار رہے ہوتے ہیں جی نہیں رہےہوتے۔ لہذا یہ بھی یاد رکھنا کہ زندگی جینے اور گزارنے میں کافی فرق ہے ۔میرے مطابق گزارنے کامطلب فکری قولی اور فعلی ازادی سے محروم زندگِی اور جینے کا مطلب زندگی کو اپنے طورطریقے سے جیا جائے جو جینے کا اصل طریقے ہیں۔ہمارے وطن عزیز میں کم لوگ ہی زندگی جی رہے ہیں جو شاید کالی ہرن کی تعداد میں ہیں ۔ہمارے بڑوں اور پڑھےلکھے بادب طبقے کا اس میں بڑا ہاتھ ہے جو بیشتر افراد کو جینے نہیں دیتے ۔ہمارے ہاں یہ فکری ٹریننگ سب سے پہلے ہر گلی کے مسجد سے لے کر بڑے بڑے جامٰعات تک سے ملی گی کہ کیسے دوسروں کی زندگی کو مفلوج کیا جایے۔یہ فکری دھشتگردی کرنے والےبڑھے بڑھے ادیب بھی ہوسکتے ہیں یا پھر عالم بھِی۔
          سرور قونین اقاے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کو منانے والوں کو بھی کچھ اس طرح کے مسایل کا سامنا ہے یہ مسایل پچھلے پندرہ سال میں کافی تیزی سے  بڑھے ہیں ۔محرم الحرام کے جلسے جلوس تو تھے ہی نشانے پر اب تو یوم ولادت مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم پر میلاد کے جلوسوں پر بھی اعتراض بڑھ گیا ہے ۔اہل علم ودانش کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ منانے کا یہ طور طریقہ بھِی کافی غلط ہے جس سے میں قدر اتفاق بھی کرتا ہوں ۔کیونکہ بعض اوقات ہم اپنے خوشیاں ایسے طور سے منانے لگ جاتے ہیں جس سےکافی لوگوں کو تکلیف کا سامنا ہوتاہے۔جو بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے۔دوسروں کے زندگی میں اگر ہمارے دین پر چلنے کے طریقے سے مسلے پیدا ہورہے ہیں تو ہمیں خیال رکھنا چاہیے ۔  چونکہ دینی علم میرا کافی ناقص ہے لہذا اس موضوع پرقلم کشائِ  کا کوئی خاص من نہیں تھا ۔ہم بچپن سے سن رہے ہیں منانا چاہیے نہیں منانا چاہیے شرک ہے بدعت ہے ۔منانے والے اپنے دلائل اور حوالے دے رہے ہوتے ہیں اور نہ منانے والے اپنے دلائل اور حوالے دونوں اپنے اپنے جگہوں پر ٹھیک ہوتے ہیں ۔پر اس اختلاف کو کبھی ختم نہیں ہونے دیتے جب تک اسکا کویی سنگین نتائج کا سامنا نہ کیا ہوجس میں بہت سے معصوم لوگوں کی زندگیا بھی ختم ہوگییں لیکن یہ اختلاف بڑھتا چلا ارہا ہے۔ سنی سنا ئی باتوں اور دلیلوں کو سامنے رکھتے ہیں جو عقل کو قائل کرسکے اور کچھ نہ کچھ اپکے سمجھ میں بھی اجائے ۔پہلے اس پہلو پر تفصیل میں جانے سے پہلے ایک بات زہں نشیں کرلیں کہ میں خود ایک دو بار تبلیغی اجتماع سے  بھی ہو کے ایا ہوں محرم کے کئ مجالس کا بھی حصہ رہا ہوں اور میلاد کے جلوسوں میں بھی شرکت  کی ہے ۔ان تمام جگہوں میں شرکت کرنے میں جوش اور ولولہ کافی تھا اور سبھی جگہوں میں عقیدت کا بھی ایک ہی حال تھا۔میراان میں سے کسی  سے کوئی اختلاف نہ ہے نہ ہوگا۔ ہاں اس کے منانے کے مختلف طور طریقےسے اختلاف ہوسکتا ہے جن میں  غلطیاں اور کوتاہیاں  بھی ہو سکتیں ہیں۔
          جی تو ہم بات کرہے ہیں عید میلاد النبی پر جسکا مطلب ہے  سرور قونین اقاے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدایش کی خوشی اور اس پر لگائے گئے دو بڑے اور  مدلل اعتراضات کے ساتھ ساتھ اس کا مدلل جوابات علامہ سیالوی کے تقریر سے۔اس عید یعنی خوشی پر پہلا اعتراض کہ عید  اقاے دو جہاں، صحابہ ،خلفایے راشدین اور امامین  کی  زندگی میں کبھی نہیں منائی گئ اور نہ ہی کسی حدیث یا روایت سے ثابت ہے اسلئَے یہ بدعت ہے گمراہی ہے۔اس پر دوسرا اور اہم اعتراض جو اجکل عام زد زبان ہے۔کہ کیا ضرورت ہے اس عید پر اتنی فضول خرچی کرنے کا بڑھے بڑھے کیک کاٹنا ٹینٹ لگانا نیاز تقسیم کرنا یہ اگر سب ملا کے غرباء اور مساکیںن میں تقسیم کی جایے توانکا بھلا ہو جاییگا۔
پہلے اعتراض کے جواب میں یہ کہ اپ کے کہنے کے مطابق مان لیتا ہوں "کہ  اقاے دو جہاں، صحابہ ،خلفایے راشدین اور امامین  کی  زندگی میں عید میلادالنبی کبھی نہیں منائی گئ اسلیے یہ بدعت ہے"۔لیکن ان ہی دنوں  اپ بھی  سیرت النبی کانفرانس کا انعقاد اس جوش ولولے سے کرتے ہیں۔پورے خطے میں اس  سیرت النبی  صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس کا انعقاد کے دھوم دھام کا اندازہ شہر شہر سڑک کے کنارے لگے بینرز سے لگایا جاسکتا ہے۔ہمارے ملک میں مرکز منصورہ،جامعہ بنوریہ ،لال مسجد اور مرکز اہل حدیث ان کانفرنسس کے بڑے مثال ہیں۔ان تمام کانفرنسس کے قیام کو اللہ تعالی تا قیامت جاری رکھے لیکن یہ بھی توہے کہ  کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ ،خلفایے راشدین اور امامین کے حیات طیبہ میں  کویی ایسے سیرت النبی پر اکٹھ حدیث یا روایت سے ثابت ہے۔شاید ثابت ہو۔واللہ علم ۔اب دوسرے اعتراض پر اتے ہیں کہ ایک ہی دن میں میلاد کے نام پر کیا ضرورت ہے اتنی فضول خرچی کرنے کا بڑھے بڑھے کیک کاٹنا ٹینٹ لگانا نیاز تقسیم کرنا یہ اگر سب ملا کے غرباء اور مساکیںن میں تقسیم کی جایے توانکا بھلا ہو جاییگا۔جی بالکل لیکن بڑھے ادب کے ساتھ  جناب اپ بھول جاتے ہیں کہ رایونڈ میں حج کے بعد دوسرا اور دنیا کا تیسرا بڑا اجتماع ہوتا ہےجس کے صرف ایک دن میں لاکھوں کے مجمعے پر قیام وطعام  پراتنا خرچہ ہوتا ہے کے اسکا بھی حساب کتاب ریکارڈڈ  ہوتا ہے تبلیغ ایک اچھا اصلاحی عمل ہے جس کو اللہ تا قیامت قایم ودائم رکھے اور ان اجتماعات کا احترام جو دل میں ہیں اس میں بھی کوئی کمی نہ ہوں لیکن  ایک معصومانہ سوال کہ کیا اس وقت بھی ان غرباء اور مساکین کو زیر خیال نہیں رکھا جاسکتا۔مجھے فتوے لگانے کا کوئی شوق نہیں لیکن اپ کے نوٹس میں ایک بات لووں اگر میلادلنبی منانے والے بدعت کر رہے ہیں تو اپ بھی ایسا ہی کچھ نہیں کر رہے کیا؟؟ اگر وہ فضول خرچی کر رہے ہیں تو اپ بھی تو ۔۔۔۔
      میر مطابق اگر ہم اپنے زندگی پر دھیان دیں تو کافی بحث شروع ہونے سے پہلے ختم ہونگیں۔ہم سب  کسی نہ کسی گمراہی کا حصہ ضورور ہوتے ہیں جس کا ہمکو پتہ بھی نہیں لگ رہا ہوتا اور جس کو ہم خود ہی ختم کرسکتے ہیں  کوئی اور نہیں۔ہمیں جینے کیلیے بھی دوسروں کو جینے دینا ہوگا اس نفرت کے عینک کو اتار کر۔  ۔آللہ توفیق دے
 مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام۔