Tuesday 1 March 2016

""پنڈی دا سپاہی لے گیا بازی"         

   حسب معمول 29 فروری کے صبح میری انکھ کھلی تو میرے سمارٹ فون کے سکرین  پر ایک سنیر صحافی کا پیغام پڑاتھا ۔جب کھولا تو دیکھا کہ چند منٹ پہلے سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ممتاز قادری کو تختہ دار پر لٹکایا گیا ہے ۔میرے  دماغ کے دروازےپر  کیی سوال دستک دے رہے تھے کہ ،' کیا یہ اچھا ہوا؟ کیا ایسا کرنا حکومت کے لیے غلط نہیں ؟ کیوں حکومت کو ایکدم ایسا کرنا پڑا؟۔خیر میں سلمان تاثیر کے ساتھ ہمدردی جتانے والوں  کےرایے کا احترام کرتا ہوں ،ہاں انکے ہر نظریے سے اختلاف کر سکتا ہوں پر انکی زاتی شخصیت پر زباندرازی کرنے سے مجھے میرا ضمیر ہمیشہ روکتا آرہا ہے۔ خیر ٹی وی دیکنھے گیا تو سبھی چینلوں پر خاموشی دیکھی۔سناٹے کا یہ عالم دیکھ کر تھوڑآ سا برا بھی لگا اور حیرت بھی ہوی کہ اس میڈیا میں تواداکارہ میرا کی انگلش ،شاہ رخ کی فلم اور کیی فضول موضوع پر کیی کیی دنوں تک خبربنا کر بحث ہوتی رہتی ہے لیکن اج تو بلکل خاموش ہے جیسے ڈرون حملوں اور بلوچستان کے حالات پر اس کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے۔تمہارے خیال میں کسی قاتل کو بڑھا چڑھا کہ پیش کرنا  الگ بات ہوگی لیکن ایک ازاد صحافی کے حیثیت سے میرے خیا میں کسی  حقیقی جمہوریہ میں خبر کا گلا اس طرح گھونٹنا بھی اس میڈیا ک لیے باعث شرم ہے۔ہماری میڈیا کے سبہی چینلزدو دن پی ٹی وی کی مثل بن چکے تھے جو ملک میں حالات چاہے کچھ بھی ہو لیکن پی ٹی وی پر حسب معمول اپکو ہمیشہ یہی خبیرملتی رہیگی کہ "کپاس کے کاشتکاروں کے نام اہم پیعام'۔واضح طور پر لگ رہا تھا کہ اج میڈیا کے گردن میں اتحاد مل کی سریے کے ساتھ ساتھ فوجی سیمٹ بھی منہ میں ڈالا گیا ہےا۔بیچارہ میڈیا دن بھر بھڑاس پترول کے نرخوں پر نکال رہی تھی ۔پٹرول نے بھی کہا ہوگا "ہن تاا چھڈ دے سستا ہو کہ وے پیچھے لگے ہو۔  خیر یہ لوگ کچھ بھی کرے سماجی  ویب سایٹس پر  تالا نہیں لگا سکتےجہاں ہرخبر کی تفصیل سکینڈوں میں ویڈیوز کے ساتھ اجاتی ہے۔ 
 اب زرا بات اس ملک میں ر ہنے والے کی کرتے ہیں۔ یہاں اقلیتوں کے علاوہ چا ر طرزمزاج کے لوگ رہ رہے ہیں ۔ایک ہیں فارمی لبرلز جوکہ ہمارے بیشتر ہایی کلاس طبقوں سےتعلق رکھتے ہیں جو اہل معرب کے مداَح ہیں۔ان کے پاس مذہب کے لیے کویی وقت  ہی نیہں اور نہ ہی وہ اس بحث میں پڑھنا چاہتے ہیں ۔پاکستان سے بے پناہ محبت بھی کرتے ہیں اورخوب وفاداری بھی نبھاتے ہیں جو مجے برے بھی نہیں لگتے۔ دوسرے لوگ یہاں کے کٹہر اسلام پسند،جو اسلامی شریعت کی صرف بات کرتے ہیں  یہ وہ  لوگ ہیں جن  کی مزاج سے کبھی سختی اور لہجے سے شدت ٹپک رہی ہوتی ہے تو کبھی بے جا نرمی ۔پاکستان کے بنتے وقت تحفظات و اختلفات اپنی جگہ لیکن اب اپنے اپکوسبہی "جانشینان پاکستان" سمجھتے ہیں اور اس ملک کے لیے ہر قسم کی قربانی سے دریع نہں کرتے  ۔ تیسرا طبقہ میری طرح لوگوں کی ہے جن کو پرو اسلامسٹ ہی کہہ لیجیے جوہرکام و فیصلہ میں کسی بھی قسم کی شدت پسندی کو  نا پسند  کرتے ہیں لیکن ملک میں معربی طرز کی فحاشی اور عریانی کی بھی سخت خلاف ہیں۔ ہم اسلام پسند اورفارمی لبرلزبھاییوں کے اچھی باتوں سے متفق ہوتے ہیں لیکن ان کے ہر غلط اقدام پر خوب تنقید کا حق بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ چو تھا ظبقہ دیسی لبرلزکہلاتے ہیں جو کہ لا شعور ہیں اور خوابوں کے دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ بحث کے یہ شوقین دیسی خوب  فلسفہ کے ماہر ہوتے ہیں  کسی وقت میں میں بھی مرید بنتے بنتے رہ گیا تھا۔یہ نادان کوکاکولا اور ولایتی خوراک یعنی فاسٹ فوڈز کھا کریہ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان،امریکہ بن گیا۔ ۔سماجی ویبسایٹس میں تیسرے ظبقے کے علاوہ  سارے طبقوں اور کے نادان لوگ کا ایک بڑی تعداد ان کے مریدین میں سے ہیں۔ یہ طبقہ میری نظر میں شدت پسندوں کے بعد سب سے خظر نک طبقہ ہے۔
                 یہ دیسی لبرلزکل خوشی کے مارے سمایے نہیں جا رہے تھے اور اپنے مریدوں سے باآواز بلند یہی کہتے رہے ،اور سمجھاتے رہے کہ پنجا ب میں حقوْق نسواں بل کی منظوری اور ممتاز قادری کی پھانسی پہلے طبقے یعنی اسلام پسند طبقے کی منہ پر زوردارطمانچہ ہے۔میرے کچھ نادان دوست بھی یہی گن گاتے رہے۔میں نے ان سے کہا کہ میں کل جنازے کے بعد آرام سے جواب دونگا۔جی تو میں اس کے حق میں نہں کہ قانون کو ھاتھ میں لے کر کوِیی بھی  غلط اقدام اٹھایی جایے خواہ یہ غلطی ممتازقادری کرے یا میرا اپنابھایی ، اور نہ اس کے حق میں کہ آسلامی قانوں کے کسی شق کو اپنے ٘من مانی سے دھندلا کیاجایے خواہ وہ  سلمان تاثیر ہو یا پھر میرا والد نعوزباللہ۔میں تو ہر اس انسان کے  نا حق قتل  کے خلاف ہوں جو میرے مزہب کا بھی نہ ہو  میں ان مولیوں کے لیے بھی سزا کا خواہشمند ہوں,جنکو اس وقت ممتاز قادری کے جیل سے رہایی کیلیے جنازے سے ادھے لوگوں کی بھی اکٹھ کرنا مقصود نہیں تھا, لیکن اب وہ اس پر ارام سے بیٹھ کے اپنا کاروبار چلاینگے . ۔   انہی مولیوں کی سوچ نے ممتاز قادری جیسے نادان انسان کو قانون شکن بنایا   ۔لیکن ااس ملک کی قانون بھی تو اس طوایف کی مانند ہے جسکے کپڑے اتار  کے  باثر طبقہ اپنی مرضی سے اسمبلیوں اورعدالتوں میں نچواتے ہیں ،اور بلڈی سولیں سے اس کا احترام کرواتے ہیں۔تبہی تو اج لوگ ریمنڈ ڈیوس ،آیان علی،شاہ زیب قتل،زیں قتل، قصور کیس اور ماڈل ٹاون واقعہ میں ناانصافی کا رونا رو رہے ہیں ۔
              , اس ملک کے اس قانوں کے رکھوالو سے بھی میرا یہ سوال ہے کہ اس ملک میں 300 کے قریب توہین رسالت کے مرتکب پھانسی کے ان مجرموں کو اب تک اقوام متحدہ کے اشاروں اور مختلف ملک دشمن آین جی آوز کے سر پرستی کی وجہ سے سزا کیوں نہیں دی گیی ہےجس کو کورٹ نے حکم جاری کیا ہے۔ یہ وہ ملک جہاں  ایک قاتل صدر اور گورنر بن سکتا ہے ۔ایک شرابی کو شہادت کا رتبہ مل سکتا ہے ۔ تو پھر سنو اپکو سلمان تاثیر سے جو ہمدردی کا حق حاصل ہے  مجھے بھی ویسے  میرے آقاِ دو جہان کی ناموسرسالت پر تختہ دار پر پنچنے والے کا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔آج ممتاز قادری کے جنازے کے ساتھ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا،٘دجالی میڈیا کا اور نواز حکومت کا خوب جنازہ نکلا۔تمام مسلما ن بشمول سنی ،بریلوی اوردیوبندیوں،حنفی اور اہل حدیث  کو بلا تفرق اس جنازے میں دیکھ کر ان دیسی لبرلز کی پریشانی اور بھی بڑھ گیی ہوگی، جو برسوں سے اس ملک کو سیکولر بنانے کے لیے محنت کرتے چلے ارہے ہیں۔اور یہ حقیقت بھی ان کو پتہ لگ گیا ہوگا کہ"موم بتی" بٹالین سے اہل جنازہ اج بھی زیادہ ہیں جو اس ملک کی اصل روح ہے ۔اس اتحاد پر یہ جملہ سب اتحادی بھاییوں کیلیے        'اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد'                     ا یک شعر ان دیس لبرلز کےاس نیی محاز پر جو اپنے مریدوں کودو دن سے اس بحث پر لگاےیے ہوے ہیں اور تسلی دے رہے ہیں کہ جنازہ تو اس کا چھوٹا     تھا اس کا بڑا تھا۔ خیر کچھ تو اسلام کی تاریخ کے بارے میں اپکو بھی پتہ چلا.بہلاو و دل کو خوب۔                                                            " ہم کومعلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن               دل کوبہلانے کا غالب یہ خیل آچھا ہے  
               اپنےقلم کے الفاظ کوبامعنی اختتام دیتے ہوے  میں اپ سبہی لوگوں کے سامنے اپنے عزیز صحافی خباب خان کا ایک غور طلب سوال رکھتا ہوں " کہ اگر اس کیس میں گورنرسلمان تاثیر نےگارڈ ممتاز قادری کو گولی مارکر جان لی ہوتی تو کیا اسکو بھی یہی سزا ہوتی۔؟ مجھے جواب دو اگر اپ کے زہن میں اس کالم کے پڑھنے سے سوال پیدا ہوے ہیں۔ تو ان سوالوں کا جواب اس ایک جملے میں دیتا ہوں کہ معافی کیجیے گا یہاں مسلہ ممتاز قادری اور سلمان تاثیر کا نہیں بلکہ ناموس  اقا دو جہاں کا ہے۔ بس بھایی میں ایک ناقص لعمل ناقصل عقل انسان ہوں اپکی طرح زیادہ باتیں اتی نہیں ایک ان پڑھ ہی سمجو جاہل ہی کہوجن کو کچی     کلاس سے اب تک ایک ہی شعر کی گہرایی ومطلب سمجھ اتی ہے ۔                                                                                                                                                                                          کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں    یہ جہاں چیزہے کیا لوح قلم تیرے ہیں۔                 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔