Monday 12 December 2016

"میلاد- اور ہم بدعتی"
 ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں پر ہمیں اپنے زاتی کام اور اقوال کے بارے میں  یہی خطرہ لایک رہتا ہے کہ  دوسرے کیا سوچیں گے دوسرے کیا کہیں گے۔اس کشمکش میں ہماری پوری زندگی اس خوشی کے ساتھ گزر رہی ہوتی ہے کہ ہم ایک ازاد معاشرے میں جی رہے ہیں لیکن حقائق بلکل اس کے بر عکس ہوتے ہیں ۔ہم دراصل زندگی گزار رہے ہوتے ہیں جی نہیں رہےہوتے۔ لہذا یہ بھی یاد رکھنا کہ زندگی جینے اور گزارنے میں کافی فرق ہے ۔میرے مطابق گزارنے کامطلب فکری قولی اور فعلی ازادی سے محروم زندگِی اور جینے کا مطلب زندگی کو اپنے طورطریقے سے جیا جائے جو جینے کا اصل طریقے ہیں۔ہمارے وطن عزیز میں کم لوگ ہی زندگی جی رہے ہیں جو شاید کالی ہرن کی تعداد میں ہیں ۔ہمارے بڑوں اور پڑھےلکھے بادب طبقے کا اس میں بڑا ہاتھ ہے جو بیشتر افراد کو جینے نہیں دیتے ۔ہمارے ہاں یہ فکری ٹریننگ سب سے پہلے ہر گلی کے مسجد سے لے کر بڑے بڑے جامٰعات تک سے ملی گی کہ کیسے دوسروں کی زندگی کو مفلوج کیا جایے۔یہ فکری دھشتگردی کرنے والےبڑھے بڑھے ادیب بھی ہوسکتے ہیں یا پھر عالم بھِی۔
          سرور قونین اقاے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کو منانے والوں کو بھی کچھ اس طرح کے مسایل کا سامنا ہے یہ مسایل پچھلے پندرہ سال میں کافی تیزی سے  بڑھے ہیں ۔محرم الحرام کے جلسے جلوس تو تھے ہی نشانے پر اب تو یوم ولادت مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم پر میلاد کے جلوسوں پر بھی اعتراض بڑھ گیا ہے ۔اہل علم ودانش کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ منانے کا یہ طور طریقہ بھِی کافی غلط ہے جس سے میں قدر اتفاق بھی کرتا ہوں ۔کیونکہ بعض اوقات ہم اپنے خوشیاں ایسے طور سے منانے لگ جاتے ہیں جس سےکافی لوگوں کو تکلیف کا سامنا ہوتاہے۔جو بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے۔دوسروں کے زندگی میں اگر ہمارے دین پر چلنے کے طریقے سے مسلے پیدا ہورہے ہیں تو ہمیں خیال رکھنا چاہیے ۔  چونکہ دینی علم میرا کافی ناقص ہے لہذا اس موضوع پرقلم کشائِ  کا کوئی خاص من نہیں تھا ۔ہم بچپن سے سن رہے ہیں منانا چاہیے نہیں منانا چاہیے شرک ہے بدعت ہے ۔منانے والے اپنے دلائل اور حوالے دے رہے ہوتے ہیں اور نہ منانے والے اپنے دلائل اور حوالے دونوں اپنے اپنے جگہوں پر ٹھیک ہوتے ہیں ۔پر اس اختلاف کو کبھی ختم نہیں ہونے دیتے جب تک اسکا کویی سنگین نتائج کا سامنا نہ کیا ہوجس میں بہت سے معصوم لوگوں کی زندگیا بھی ختم ہوگییں لیکن یہ اختلاف بڑھتا چلا ارہا ہے۔ سنی سنا ئی باتوں اور دلیلوں کو سامنے رکھتے ہیں جو عقل کو قائل کرسکے اور کچھ نہ کچھ اپکے سمجھ میں بھی اجائے ۔پہلے اس پہلو پر تفصیل میں جانے سے پہلے ایک بات زہں نشیں کرلیں کہ میں خود ایک دو بار تبلیغی اجتماع سے  بھی ہو کے ایا ہوں محرم کے کئ مجالس کا بھی حصہ رہا ہوں اور میلاد کے جلوسوں میں بھی شرکت  کی ہے ۔ان تمام جگہوں میں شرکت کرنے میں جوش اور ولولہ کافی تھا اور سبھی جگہوں میں عقیدت کا بھی ایک ہی حال تھا۔میراان میں سے کسی  سے کوئی اختلاف نہ ہے نہ ہوگا۔ ہاں اس کے منانے کے مختلف طور طریقےسے اختلاف ہوسکتا ہے جن میں  غلطیاں اور کوتاہیاں  بھی ہو سکتیں ہیں۔
          جی تو ہم بات کرہے ہیں عید میلاد النبی پر جسکا مطلب ہے  سرور قونین اقاے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدایش کی خوشی اور اس پر لگائے گئے دو بڑے اور  مدلل اعتراضات کے ساتھ ساتھ اس کا مدلل جوابات علامہ سیالوی کے تقریر سے۔اس عید یعنی خوشی پر پہلا اعتراض کہ عید  اقاے دو جہاں، صحابہ ،خلفایے راشدین اور امامین  کی  زندگی میں کبھی نہیں منائی گئ اور نہ ہی کسی حدیث یا روایت سے ثابت ہے اسلئَے یہ بدعت ہے گمراہی ہے۔اس پر دوسرا اور اہم اعتراض جو اجکل عام زد زبان ہے۔کہ کیا ضرورت ہے اس عید پر اتنی فضول خرچی کرنے کا بڑھے بڑھے کیک کاٹنا ٹینٹ لگانا نیاز تقسیم کرنا یہ اگر سب ملا کے غرباء اور مساکیںن میں تقسیم کی جایے توانکا بھلا ہو جاییگا۔
پہلے اعتراض کے جواب میں یہ کہ اپ کے کہنے کے مطابق مان لیتا ہوں "کہ  اقاے دو جہاں، صحابہ ،خلفایے راشدین اور امامین  کی  زندگی میں عید میلادالنبی کبھی نہیں منائی گئ اسلیے یہ بدعت ہے"۔لیکن ان ہی دنوں  اپ بھی  سیرت النبی کانفرانس کا انعقاد اس جوش ولولے سے کرتے ہیں۔پورے خطے میں اس  سیرت النبی  صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس کا انعقاد کے دھوم دھام کا اندازہ شہر شہر سڑک کے کنارے لگے بینرز سے لگایا جاسکتا ہے۔ہمارے ملک میں مرکز منصورہ،جامعہ بنوریہ ،لال مسجد اور مرکز اہل حدیث ان کانفرنسس کے بڑے مثال ہیں۔ان تمام کانفرنسس کے قیام کو اللہ تعالی تا قیامت جاری رکھے لیکن یہ بھی توہے کہ  کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ ،خلفایے راشدین اور امامین کے حیات طیبہ میں  کویی ایسے سیرت النبی پر اکٹھ حدیث یا روایت سے ثابت ہے۔شاید ثابت ہو۔واللہ علم ۔اب دوسرے اعتراض پر اتے ہیں کہ ایک ہی دن میں میلاد کے نام پر کیا ضرورت ہے اتنی فضول خرچی کرنے کا بڑھے بڑھے کیک کاٹنا ٹینٹ لگانا نیاز تقسیم کرنا یہ اگر سب ملا کے غرباء اور مساکیںن میں تقسیم کی جایے توانکا بھلا ہو جاییگا۔جی بالکل لیکن بڑھے ادب کے ساتھ  جناب اپ بھول جاتے ہیں کہ رایونڈ میں حج کے بعد دوسرا اور دنیا کا تیسرا بڑا اجتماع ہوتا ہےجس کے صرف ایک دن میں لاکھوں کے مجمعے پر قیام وطعام  پراتنا خرچہ ہوتا ہے کے اسکا بھی حساب کتاب ریکارڈڈ  ہوتا ہے تبلیغ ایک اچھا اصلاحی عمل ہے جس کو اللہ تا قیامت قایم ودائم رکھے اور ان اجتماعات کا احترام جو دل میں ہیں اس میں بھی کوئی کمی نہ ہوں لیکن  ایک معصومانہ سوال کہ کیا اس وقت بھی ان غرباء اور مساکین کو زیر خیال نہیں رکھا جاسکتا۔مجھے فتوے لگانے کا کوئی شوق نہیں لیکن اپ کے نوٹس میں ایک بات لووں اگر میلادلنبی منانے والے بدعت کر رہے ہیں تو اپ بھی ایسا ہی کچھ نہیں کر رہے کیا؟؟ اگر وہ فضول خرچی کر رہے ہیں تو اپ بھی تو ۔۔۔۔
      میر مطابق اگر ہم اپنے زندگی پر دھیان دیں تو کافی بحث شروع ہونے سے پہلے ختم ہونگیں۔ہم سب  کسی نہ کسی گمراہی کا حصہ ضورور ہوتے ہیں جس کا ہمکو پتہ بھی نہیں لگ رہا ہوتا اور جس کو ہم خود ہی ختم کرسکتے ہیں  کوئی اور نہیں۔ہمیں جینے کیلیے بھی دوسروں کو جینے دینا ہوگا اس نفرت کے عینک کو اتار کر۔  ۔آللہ توفیق دے
 مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام۔

Friday 3 June 2016

          "ان سنی حقیقت"                                          

        اج قلم  اٹھاتے ہوئے کچھ عجیب سی کیفیت ہے ۔صبح سے سوچ رہا ہوں کسی اور عنوان کو زیر قلم کرتا ہوں یا کوِئی اور مسلے پر لکھتا ہوں پر نہِیں شاید میں اپنے اپ کو تو منوا لونگا لیکن میرے ساتھ جڑے لوگ جو اس حقیقت سے نا اشنا ہیں ان کو اس  کے بارے تفصیلا اگاہ کرنا میری نا صرف صحافتی اصولوں کی پاسداری ہے بلکہ ایک زمہ داری بھی۔میں ہمیشہ شوقیہ لکھتا ہوں نہ کبھی پڑھنے والوں کی تعداد سے غرض رہا ہے اور  نہ ہی کبھی مجھ پر اعتراض کرنے والوں سے ۔ہمیشہ ایک عنوان پر لکھنے سے پہلے اس پرکافی گہرایی سے ریسرچ کرتا ہوں اور اس مسلے کے جڑوں کا بخوبی سے جایزہ لیتا ہوں۔مجھے پتہ ہے میں اردو گرائمر  کی ساکھ اور خو بصورتی  کو اپنے قلم سے کافی نقصان پہنچا رہا ہوں۔ پرپھر بھی  جو لوگ میرے کم تجربے کے باعث میرے لکھی ہوی تحریروں کو اپنے قیمتی وقت میں غور سے سمجھتے ہیں شکرآ ان کے لیے۔
           اپنے موضوع کی طرف اتے ہیں ۔اپنے تعریف کے لیے پھر کبھی وقت نکالونگا۔جی تو کویی ایک سال پہلے میں نیٹ پر ُی ٹی وی کا ایک معروف صحافی کسانہ صاحب کا پروگرام دیکھ رہا تھا جس میں میہمان سابقہ وزیر مذہب امور حامد  سعید کا ظمی صاحب تشریف فرما تھے ۔فون لاین پر محسن پاکستان ڈاکٹر اے کیو خان صاحب تھے ۔کسانہ صاحب کے سوال پر ڈاکٹر صاحب نے ایک لمبی چوڑی گفتگو کی جس کا مختصرَ نچوڑ یہ ہے کہ "حامد  سعید صاحب کو میں خود جانتا ہوں ۔اپ ایک اچھے انسان ہیں مخلص ہیں اپنے کام میں کبھی کبھی جزباتی ہوجاتے ہیں ۔ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ حامد  سعید صاحب نے خود مجھے  کہا ہے کہ میں حرم پاک میں مدینہ پاک میں جاکر کھڑا ہو کر یہ بیان دینے کے لیے تیا ر ہوں کہ میں نے ایک پایی بھی بد گمانی سے نہیں کما ئی ۔ "ڈاکٹر صاحب کی پندرہ بیس منٹ کے بعد کال بند ہوتے ہی کاظمی صاحب ابدیدہ بھی تھَے اور لڑکھڑاتے الفاظ میں یہی  کہ رہے تھَے کہ میرے لیے ڈاکٹر صاحب کی گواہی کافی ہے اور ساری زندگی یہی میرے لیے سند رہیگا ۔اس کے علاوہ کاظمی صاحب بیشتر پروگراموں میں یہی کہہ چکے ہیں کہ میں یہ نہیں کہتا کہ میرے دور میں بد گمانی نہیں ہوی لیکن جو کچھ ہوا ہے اس میں میرا بس نہیں اور نہ ہی میری سر پرستی حاصل ہے ۔ماہنامہ نوائے انجمن لاھور کے چیف ایڈیٹر رضاحسین حیدری کے مطابق  ایک کام کروانے کے عوض کاظمی شاہ صاحب کے ایک قریبی نے مجھ سے رشوت طلب کی تھی اس وجہ سے میں یہ سمجھتا تھا کہ ان کے دور میں کرپشن کا بازار گرم رھامگر میں یہ بھی جانتا تھا کہ کاظمی شاہ صاحب بذات خود اس کرپشن میں ملوث نہیں دراصل انہیں  مسلکی اگ میں جھلایا جارہا ہے ۔
                  اصل بات جس کی وجہ سے کاظمی شاہ صاحب پر سارا نزلہ گرایا گیا وہ یہ ھے کہ جب اس وقت کا وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سعودی عرب کے دورہ پر گیا تو سعودی گورنمنٹ نے گیلانی شاہ صاحب کو آفر دی کہ آپ تمام پاکستان کےتمام سکولوں کالجوں میں اسلامیات کے مضمون کو لازمی قرار دیں اس مضمون کو پڑھانے کے لئے جتنے ٹیچر پروفیسرز رکھے جائیں گے ان کو تنخواہ سعودی گورنمنٹ دے گی گیلانی شاہ اس تجویز کو لے کر پاکستان آگئےاور اپنے سعودیہ کے دورے پر کابینہ میں بریفنگ کے دوران بتایا کہ سعودی گرنمنٹ کی طرف سے یہ آفر ھے اس پر سید خورشید شاہ نے پوچھا کہ نصاب کون سا پڑھایا جائے گا تو بتایا گیا کہ نصاب سعودی گورنمنٹ کی مرضی کا ھوگا اس پر سید خورشید شاہ نے کہا کہ یہ تو ہماری آنے والی نسلوں کو ایران و سعودی اگ میں جھانکنے کی سازش ھے اس پر سید حامد سعید کاظمی شاہ صاحب کھڑے ھوئے انہوں نے کابینہ میں سعودی گورنمنٹ کی اس تجویز پر شدید احتجاج کیا اور یہ تجویز کابینہ نے اکثریت رائے سے نامنظور کردی اس وقت کابینہ میں اعظم ھوتی 0جو اس وقت جمیعت علماء اسلام ف کے سرگرم رہنماووں میں تھَے وہ بھی تشریف فرماں تھے۔ اس نے باہر نکل کرمولان فضل الرحمان صاحب سربراہ جمعیت علماء اسلام کو ساری بات بتائی اور خورشید شاہ صاحب جنہوں نے سب سے پہلے احتجاج کیا تھا ان کا نام چھپا کر سارا مدا کاظمی شاہ صاحب پر ڈال دیا مولانا فضل الرحمان صاحب نے سعودی گورنمنٹ کو ساری بات بتائی تو سعودی عرب والوں نے علامہ کاظمی شاہ صاحب کو مزا چکھانے کا عندیہ دیا اور کہا حج کا موسم آنے دو دیکھ لیں گے جب حج کا موسم قریب آیا تو وزارت کے نمائندے مکہ اور مدینہ میں رہائشوں کا وزٹ کرنے گئے سعودیہ والوں نے جو رھائش پاکستانی حاجیوں کو دینے کا کہا وہ سعودی شہزادوں کی ملکیت ہیں وہ دور بھی تھیں اور مہنگی بھی یاد رھے ہر سال یہ رھائش لینے کے بدلے سعودی شہزادے وزارت کے نمائندوں کو بھاری رشوت دیتے تھےجب کاظمی شاہ صاحب کے علم میں یہ بات آئی تو علامہ کاظمی یہاں بھی ڈٹ گئے اور وزارت کے نمائندوں کو قریب تریں رھائشیں لینے کا حکم دیا جب یہ بات سعودی شہزادوں کے علم میں آئی تو ان کی دشمنی اپنے عروج پر پہنچ گئی اور انہوں نے کاظمی شاہ صاحب کو نقصان پہنچانے کا حتمی فیصلہ کرلیا اور وزارت کے نمائندوں (راوشکیل وغیرہ)سے ساز باز کرکے ذیادہ فاصلے والی رھائشیں ذیادہ ریٹ پر پاکستانی گوورنمنٹ کو دے دیں اورچندسعودی نواز حاجیوں کے زریعہ دھرنا کا ڈرامہ رچایا سعودی گورنمنٹ نے اپنی نگرانی میں چند سعودی نوازوں کے زریعے احتجاج کروایا اور پھر خود ھی کاظمی شاہ صاحب کے خلاف خط لکھ کر وعدہ معاف گواہ بن گئے ادھر مولانا فضل الرحمن صاحب جو کہ حج آپریشن کو وزارت سیاحت کے زیر اہتمام کرنے کا کئی دفع مطالبہ کر چکے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ حج آپریشن کو وزارت مذہبی امور سے لے کر وزارت سیاحت کے زیر اہتمام کر دیا جائے جس پر ان کے چھوٹے بھائی لطف الرحمان صاحب براجمان ھوں انہوں نے سعودی گورنمنٹ سے ساز باز کرکےاپنے کارندے اعظم ہوتی صاحب کو اس کیس کے پیچھے لگا دیاجس کو بعد میں یہی وزارت دی گیی ۔بات یہاں ختم نہِں ہوتی بلکہ کاظمی صاحب کے عزیزوں کے مطابق اس کھیل کو بہت صفایی سے کھیلا گیا۔کاظمی صاحب نے سپریم کورٹ سے اپیل کی تھی کہ اسکا فیصلے کا اوپن ٹرایل کے بطور پورے قوم کے سامنے ٹی وی سیٹ پر ان لاین کی جایے پر عدالت کو یہ منظور نہیں تھی ۔عدالت اعطمی نے بلا اخر فیصلہ سنا دیا۔
    اج کاظمی صاحب کے ایک چاہنے والے سے بات ہوی تو اس نے یہ کہا کہ چونکہ بینچ میں فیصلے دینے والا معزز جج صاحب تبلیغِ جماعت سے وابسطہ ہیں اور کیی بارچھلہ کیلیے تبلیٰٰع میں گیَے ہیں اس لیے اس نے ایسا فیصلہ دیا جس کی اس سے توقٰع تھِی۔خیر میں ایسے باتوں کو فیصلے کا بنیادءی وجہ نہیں سمجھتا اور نہ ہی میں کسی مسلک پر یقین رکھتا ہوں۔ میں اس فیصلے پر سپریم کورٹ کے وقار کو برابھلانہیں کہتا  کیونکہ سپریم اتھارٹی ایک فیصلہ دیتے ہوے کافی محنت کرینگے اور انصاف کے ہر پہلو کو مد نظر رکھ کر فیصلہ دینگے بے شک۔میں صرف  یہ کہنے کا حق محفوظ رکھتا ہوں کہ ۸۳ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں واضح لکھا ہے کے کاظمی صاحب پر بد عنوانی اور کرپشن ثابت نہِں ہو سکی ۔بلکہ ان کو یہ سزا بد انتظامی غفلت اور نااہلی کے بنا پر دی گیی ہے ۔اگر یہ درست ہے تو اس روشنی میں  ایف اہی اے اور سپریم کورٹ کے معز ز حضرات سے یہ سوال ہے  کہ کیا ملک کے تمام محکموں کے انتظامات بلکل ٹھیک اور درست ہیں؟اس فیصلے میں اور بھی لوگ تھے جسمیں یوسف رضا گیلانی کے فرزند بھی تھے وہ کیوں بچ نکلے؟کیا اس فیصلے سے مسلکی منافرت نہیں پھیلیگی ؟

Friday 27 May 2016

                                 
                             "گیٹ ویل سون"  
                                       
                                                                   
ہم بحیثیت قوم ایک ایموشنل قوم ہیں جن کو جذبات کے  ساتھ ساتھ  بھولنے کی بھی بیماری ہے۔ اس ملک میں رہنے والوں کی ادھی سے زیادہ زندگی  انہی ظالم حکمرانون کی وجہ سے بے نمک اور درد بھری گزرتی ہے ۔بجلی جائے،پانی نہ آئے،سگنل بند ہوں یا پھر روزمرہ زندگی میں استعمال کی کوئی بھی چیز مہنگی ہو تو گھر کے سبھی لوگ با آواز بلند یک زبان ہو کر پہلے ہی بد دعا صدر اور وزیر اعظم کو دیتے ہیں۔لیکن پانچ سال بعد آرام سے انکے باتوں میں اکر موم کی طرح پگل جاتے ہیں۔
           یہ ملک ہے امین فہیم جیسے بددیانت انسان کی جس کے مرنے پر سبھی صحافی برادری رشتہ دارانہ جذبے کو دل میں لیے تعزیتی کالم کیی کیی دن تک لکھتے رہے ۔پر مجھے آج بھی شکر ہے کوئی دکھ نہیں اور نہ کبھی ہوگا۔ جس بندے نے اس قوم کو اتنا کھایا اتنا کھایا کے خدا نے بھی اسکی چربی لندن میں پگھلایی اور سارا گند وہی  نکال کراسکی انکھین بند کرادیںایک اور اہم بات یہ کہ ۔ہمارے اکثر حکمرانوَں کے مرض لموت میں یہ لندن والا پارٹ ضرور چلتا ہے۔
          اس ملک و قوم کے ساتھ جو بھی برا کرے خواہ وہ میرا رشتے میں سکا بھایی ہو آللہ اسکے ساتھ اسکے کتاب کے مطابق حساب کرے ۔بد دعا نہیں دیتا،مزاج ایسا نہیں ۔پر بڑے ندامت کے ساتھ اکثر ہمارے صحافی بھایی کچھ زیادہ ایموشنل  بن کر سماجی ویبسایٹس پر "گٹ ویل سون" لکھے جارہے ہیں ۔خیریت ہےمجھے لگتا ہے اپکے اپنے کچھ مقاصد تو ہونگے نیہں ۔ لیکن پھر بھی اس ملک کو دیوار سے لگانے والوں کو اپنے دعاووں سے صحت یاب کر کے اس ملک کو اور بر باد دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ اپکی حب لوطنی ہوگی ۔ میرا جاہل ضمیر اسی ایک مشورے پر آڑھا ہے کہ انکی صحت جانے اور آللہ جانے۔رب کائنات کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ اس سے زیادہ مجھے فکر ہو رہی ہے تھر میں  بھوک اور افلاس سے لڑنے والے سبھی ان غریب لوگوں کی اور ان بیمار بچوں کی جن کیلیے نہ دوا ہے اور نہ دعا،اگر ہے تو صرف اس گندی جمہوریت کی دغآ۔
    میری بس یہی دعا ہے کہ اپ سبھی کے" گیٹ ویل سون" اس ملک سے نہ نکلے بلکہ اسی  ملک میں پڑے سبھی ضرورت مند لوگوں کے کام ایے ۔امین 

Sunday 8 May 2016

          "پاگل مائیں   

 اگست 2013  کی بات ہے رمضان کے اخری عشرے کے کوی پانچواے روزے کے سحری کے لییے بنی بازار کے ناشتے کا دل کیا تو جیب نے اس شاہانہ سحری کا اجازت نہ دیا  ۔ خیر کویی تین بجے میں  ہاسٹل سے نکلا ۔اپنے دماغ میں بہت سے سستتے خوراک کی اییٹمز کو تر تیب دیا لیکن۔بلاخر دہی اور جوس پر اکتفا کرتے ہوے اگے اہستہ اہستہ مارکیٹ کی طرف چل دیا۔سکستھ روڈ فلای اور کے ساتحھ والے پلازے کے بیسمنٹ میں ایک دوکان تھی جس کے ساتھ اپنا کھاتے کا انتظام تھا۔کٹھن مالی حالات میں اسی دوکان کے سہارے مہینہے کے اخر تک اپنا پان پیڑی یہی سے عنایت ہوتی رہتی تھین۔چند ہی دیر بعد دوکان کے کاونٹر پر تھا۔دوکاندرار نے تیزی سے انگلیاں میرے ہاتھ سے لگاتے ہوے رویتی سلام کیا اور پوٹھوہاری میں بولا 'الہ خاناں تساں کے چایےنا' میرے ساتھ ہی داییں ہاتھ پر ایک پختہ عمر کی خاتون ہاتھ میں کچھ ڈبے دودھ کے اور کچھ ادھ ایک لفافے میں دہی پکڑ کر  کھڑی تھی ۔وہ دوکاندار سے کہ رہی تھی کہ "بھایی جلدی کرو سحری کا وقت جارہا ہے"۔کافی غور سے اس کی طرف دیکھا تو انکھوں کو اشکوں نے گیلا کردیا  یہ انسو اپ یقین مانیں کہ کافی کم موقعوں پر میرے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔

         ہاں یہ خاتون دراصل یہاں مری روڈ پر بیشتر شام کے اوقات کھڑیں معاشرے کے ان بے بس خواتین میں سے سب سے زیادہ جان پہچان والی تھی،جو اپنے مجبوریوں کو لگام دینے کے لیے اپنے جسم کو انگارون پر رکھتی ہیں ۔جن کو ہمارا معا شرہ حرف عام مین 'رنڈی'کا نام دیتا ہے۔دوکاندار نے سامان پکڑاتے ہوے اسے بقایا بھی دیا، جس کے سااتھ ہی وہ چلی گیی۔ اس کے جانے کے بعد میں اور دوکاندار ہی رہ گیے تھے میں نےپوثھا بھایی یہ خاتوں پورےرمضان یہ سحری کا سامان یہان سے لے کے جاتی ہے اس نے کہا  "ہاں خاناں" ۔ میں اگلا سوال کرتا اتنے میں دوکاندار نے جوس کاونٹر پرمیرے سامنے رکھتے ہوے  کہا "خان یہ سید زادی ہے اور اس نے مجھے بتایا ہے کہ میں اپنے گھر والون کو یہی بتاکر نکلتی ہوں کہ کمرشل مارکیٹ میں ایک کال سینٹر کے ساتھ رات کے شفٹ کیلیے بطور ریسپشنسٹ کام کرتی ہوں۔گھر میں ایک بڑا بیٹا ہے جو ذہنی مریض ہے باقی ایک جوان بیٹی اور دو بیٹے ہیں جو کہ میٹرک اور ایف اے میں پڑھتے ہیں۔شوہر کا انتقال کو چار سال ہوے ہیں۔تب سے گجر خان سے اکر یہاںں پنڈی میں رہ رہی ہے۔اور دو سال سے اس سامنے مری روڈ سے وابستگی ہے توچایے چینی کے لیے یہں پر اتی ہے۔میرے ذہن میں یہی سوال تھے جو ابھی اپ لوگوں کے ذہن میں پیدا ہویے ہیں لیکن چند دیر کے لیے سوچا تو میرے  ضمیر نے میرے ذہن میں ہر سوال کا جواب دے کر تسلی کرادی۔ماں کی قخیل اور محبت کا خطرناک روپ اس دن دیکھ کر احساس ہوا تھا اور وہ یہ کہ ایک ماں اپنے اولاد کی محبت اور پرورش  میں کس طرح اپنے روح کو ہر شام داغ دیتی ہے۔

        ہم میں سے شاید اکثر  لوگ جان کر  کبھی غور کرنے کی زحمت بھی نہ کی ہو کہ جن کو ہم بیہودہ نام دے کر پکارتے ہیں کیا ایے سید زادیوں کے گھروں میں جھانک کر دیکھا ہے جن کو اپنے اولاد،بھایی بہنون کے تعلیم اور بوڑھے ماں باپ کے علاج کے لیے معاشرے کے ظلم اور اپنوں کے بے رخی نے اس مقام پر لاکر کھڑا کیا ہوتا ہے۔یہ تو ایک ماں ہے اس طرح کتنی ماییں ہیں جو اسلامی "جمہوریہ پاکستان" کے کونے کونے میں اپنے اولاد اور گھر کے  مجبویوں کے لیے روز روح پر زخمم کھاتیں ہیں۔ماں کے بارے میں میرےنانی مجھے کہتی ہیں کہ "بیٹا ماں ایک واحد وہ شتہ ہے جو ہر صورت میں اپنے اولاد کو اپنے سے زیادہ محبت ہمدردی اور خیال رکھتی ہے" ۔نانیی کہتی ہے کہ" اگر ایک ماں چڑیل بھی بن جایے تو بھی اپنے اولاد کونقصان نہیں پہنچاتی"۔

         بیٹا کیسے ہو؟ کہاں تھے ؟کھانا کھایا ہے ؟ کیوں نہیں سویے ابھی تک ؟حالانکہ ہم25 یا35کے ہوں یا پھر60,70کے ماں بچپن سے وہی چند سوال دہراتیں رہتی ہین کیونکہ ماں کو احساس اتنا کہ  اولاد کو نظر سے اوجھل ہوتے ہی اسے واقع میں سکان نہیں ہوتا۔میں تو کہوں کہ ماں  کا پیار ہی ایک سچا پیار ہے ورنہ ہم ۔۔ بھیی ہم تو ہر پل بدلتے رہتے ہیں کبھی پیسے کے لالچ سے تو کبھی بیوی بچوں کے غرض سے اور کبھی جاییداد کی اڑھ میں اس ماں پر زباں درازی کرتے ہیں۔ اکثر اس مان کو یہ بھی سننا پڑھتا ہے کہ" ماں تو نیہں جانتی "جو زبان پہلے  دن صرف رونے کے سواء کچھ نیں جانتی تھی۔ جن چیخنے اور رونے کی اواز سے باپ بہن بھای نیند میں سرہانہ کھانوں پر رکھ لیتے تھےاس کے لیے ہمارے ماوں نے کتنے راتِیں قربان کی ہیں۔ صرف ماں ہی ہوتی تھی جواس رونے میں بھی اور طوطلے زبان سے نکلے ہر لفظ سے  ہمارے مقاصد  جان لیتی تھی وہ اج واقعی میں نہیں جانتی یا ہم کچھ زیادہ بڑھے ہو گیےہیں۔شاید ہم کچھ زیادہ بڑھے ہوگیے ہیں۔

واقع میں ایسا ہی کچھ ہے کہ  لفظ" ماں" کواپ کسی بھی زبان میں پکارو وہ ہونٹوں سےہی شروع ہوگا۔ماں کو بیاں کرنے کے لیےزیر قلم الفاظ بھی کم پڑ جاتے ہیں ۔اجکل صورتحال کچھ یوں ہے کہ ہم مدرز ڈے کے بارے کسی ٹی وی یا ریڈیو پر ہی دوسروں سے سن کر کوی ایک دو گانے سن لیتے ہیں۔اسی طرح پھر سماجی ویبسایٹس پر اپنے تصویر رنگین کر کے ماں کو خراج عقیدت پیش کرد یتے ہیں یا پھر کسی اور کا اقوال زرین اور واقعات پڑھ کروقتی طور پر جزباتی ہوجاتے ہیں ۔ پورا سال تو کچھ اورہی ماحول ہوتا ہے بس نہ پوچھیے سب پتا ہے اپکو بھی اور مجھے بھی ۔وہ بھی اپکے ہر بات سے اشنا ہے اور اپکے ہر کام  کو بھی خوب جانتی ہے لیکن اگنور کرتی ہے کہ کہی "فلانے کے آبے ' کو پتا چل نہ جاے نہیں تو قیامت ڈھا دے گا۔تم لوگ مانو یا نہ مانو میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ میں دنیا کا نالایک ترین بیٹا ہوں لیکن یہ بات میں امی کے سامنے نہیں کر سکتا کیونکہ وہ یہی  کہے گی 'آللہ نہ کرے" ۔میرا بیٹا تو ایسا ہے میرا بیٹا تو ویسا ہے،مطلب بڑا "پنے خان"۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا بولیں پھر وہ اصرار کرے گی۔پاگل مائیں جو ہیں۔

           
              ......................................................................................................................................


Tuesday 1 March 2016

""پنڈی دا سپاہی لے گیا بازی"         

   حسب معمول 29 فروری کے صبح میری انکھ کھلی تو میرے سمارٹ فون کے سکرین  پر ایک سنیر صحافی کا پیغام پڑاتھا ۔جب کھولا تو دیکھا کہ چند منٹ پہلے سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ممتاز قادری کو تختہ دار پر لٹکایا گیا ہے ۔میرے  دماغ کے دروازےپر  کیی سوال دستک دے رہے تھے کہ ،' کیا یہ اچھا ہوا؟ کیا ایسا کرنا حکومت کے لیے غلط نہیں ؟ کیوں حکومت کو ایکدم ایسا کرنا پڑا؟۔خیر میں سلمان تاثیر کے ساتھ ہمدردی جتانے والوں  کےرایے کا احترام کرتا ہوں ،ہاں انکے ہر نظریے سے اختلاف کر سکتا ہوں پر انکی زاتی شخصیت پر زباندرازی کرنے سے مجھے میرا ضمیر ہمیشہ روکتا آرہا ہے۔ خیر ٹی وی دیکنھے گیا تو سبھی چینلوں پر خاموشی دیکھی۔سناٹے کا یہ عالم دیکھ کر تھوڑآ سا برا بھی لگا اور حیرت بھی ہوی کہ اس میڈیا میں تواداکارہ میرا کی انگلش ،شاہ رخ کی فلم اور کیی فضول موضوع پر کیی کیی دنوں تک خبربنا کر بحث ہوتی رہتی ہے لیکن اج تو بلکل خاموش ہے جیسے ڈرون حملوں اور بلوچستان کے حالات پر اس کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے۔تمہارے خیال میں کسی قاتل کو بڑھا چڑھا کہ پیش کرنا  الگ بات ہوگی لیکن ایک ازاد صحافی کے حیثیت سے میرے خیا میں کسی  حقیقی جمہوریہ میں خبر کا گلا اس طرح گھونٹنا بھی اس میڈیا ک لیے باعث شرم ہے۔ہماری میڈیا کے سبہی چینلزدو دن پی ٹی وی کی مثل بن چکے تھے جو ملک میں حالات چاہے کچھ بھی ہو لیکن پی ٹی وی پر حسب معمول اپکو ہمیشہ یہی خبیرملتی رہیگی کہ "کپاس کے کاشتکاروں کے نام اہم پیعام'۔واضح طور پر لگ رہا تھا کہ اج میڈیا کے گردن میں اتحاد مل کی سریے کے ساتھ ساتھ فوجی سیمٹ بھی منہ میں ڈالا گیا ہےا۔بیچارہ میڈیا دن بھر بھڑاس پترول کے نرخوں پر نکال رہی تھی ۔پٹرول نے بھی کہا ہوگا "ہن تاا چھڈ دے سستا ہو کہ وے پیچھے لگے ہو۔  خیر یہ لوگ کچھ بھی کرے سماجی  ویب سایٹس پر  تالا نہیں لگا سکتےجہاں ہرخبر کی تفصیل سکینڈوں میں ویڈیوز کے ساتھ اجاتی ہے۔ 
 اب زرا بات اس ملک میں ر ہنے والے کی کرتے ہیں۔ یہاں اقلیتوں کے علاوہ چا ر طرزمزاج کے لوگ رہ رہے ہیں ۔ایک ہیں فارمی لبرلز جوکہ ہمارے بیشتر ہایی کلاس طبقوں سےتعلق رکھتے ہیں جو اہل معرب کے مداَح ہیں۔ان کے پاس مذہب کے لیے کویی وقت  ہی نیہں اور نہ ہی وہ اس بحث میں پڑھنا چاہتے ہیں ۔پاکستان سے بے پناہ محبت بھی کرتے ہیں اورخوب وفاداری بھی نبھاتے ہیں جو مجے برے بھی نہیں لگتے۔ دوسرے لوگ یہاں کے کٹہر اسلام پسند،جو اسلامی شریعت کی صرف بات کرتے ہیں  یہ وہ  لوگ ہیں جن  کی مزاج سے کبھی سختی اور لہجے سے شدت ٹپک رہی ہوتی ہے تو کبھی بے جا نرمی ۔پاکستان کے بنتے وقت تحفظات و اختلفات اپنی جگہ لیکن اب اپنے اپکوسبہی "جانشینان پاکستان" سمجھتے ہیں اور اس ملک کے لیے ہر قسم کی قربانی سے دریع نہں کرتے  ۔ تیسرا طبقہ میری طرح لوگوں کی ہے جن کو پرو اسلامسٹ ہی کہہ لیجیے جوہرکام و فیصلہ میں کسی بھی قسم کی شدت پسندی کو  نا پسند  کرتے ہیں لیکن ملک میں معربی طرز کی فحاشی اور عریانی کی بھی سخت خلاف ہیں۔ ہم اسلام پسند اورفارمی لبرلزبھاییوں کے اچھی باتوں سے متفق ہوتے ہیں لیکن ان کے ہر غلط اقدام پر خوب تنقید کا حق بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ چو تھا ظبقہ دیسی لبرلزکہلاتے ہیں جو کہ لا شعور ہیں اور خوابوں کے دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ بحث کے یہ شوقین دیسی خوب  فلسفہ کے ماہر ہوتے ہیں  کسی وقت میں میں بھی مرید بنتے بنتے رہ گیا تھا۔یہ نادان کوکاکولا اور ولایتی خوراک یعنی فاسٹ فوڈز کھا کریہ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان،امریکہ بن گیا۔ ۔سماجی ویبسایٹس میں تیسرے ظبقے کے علاوہ  سارے طبقوں اور کے نادان لوگ کا ایک بڑی تعداد ان کے مریدین میں سے ہیں۔ یہ طبقہ میری نظر میں شدت پسندوں کے بعد سب سے خظر نک طبقہ ہے۔
                 یہ دیسی لبرلزکل خوشی کے مارے سمایے نہیں جا رہے تھے اور اپنے مریدوں سے باآواز بلند یہی کہتے رہے ،اور سمجھاتے رہے کہ پنجا ب میں حقوْق نسواں بل کی منظوری اور ممتاز قادری کی پھانسی پہلے طبقے یعنی اسلام پسند طبقے کی منہ پر زوردارطمانچہ ہے۔میرے کچھ نادان دوست بھی یہی گن گاتے رہے۔میں نے ان سے کہا کہ میں کل جنازے کے بعد آرام سے جواب دونگا۔جی تو میں اس کے حق میں نہں کہ قانون کو ھاتھ میں لے کر کوِیی بھی  غلط اقدام اٹھایی جایے خواہ یہ غلطی ممتازقادری کرے یا میرا اپنابھایی ، اور نہ اس کے حق میں کہ آسلامی قانوں کے کسی شق کو اپنے ٘من مانی سے دھندلا کیاجایے خواہ وہ  سلمان تاثیر ہو یا پھر میرا والد نعوزباللہ۔میں تو ہر اس انسان کے  نا حق قتل  کے خلاف ہوں جو میرے مزہب کا بھی نہ ہو  میں ان مولیوں کے لیے بھی سزا کا خواہشمند ہوں,جنکو اس وقت ممتاز قادری کے جیل سے رہایی کیلیے جنازے سے ادھے لوگوں کی بھی اکٹھ کرنا مقصود نہیں تھا, لیکن اب وہ اس پر ارام سے بیٹھ کے اپنا کاروبار چلاینگے . ۔   انہی مولیوں کی سوچ نے ممتاز قادری جیسے نادان انسان کو قانون شکن بنایا   ۔لیکن ااس ملک کی قانون بھی تو اس طوایف کی مانند ہے جسکے کپڑے اتار  کے  باثر طبقہ اپنی مرضی سے اسمبلیوں اورعدالتوں میں نچواتے ہیں ،اور بلڈی سولیں سے اس کا احترام کرواتے ہیں۔تبہی تو اج لوگ ریمنڈ ڈیوس ،آیان علی،شاہ زیب قتل،زیں قتل، قصور کیس اور ماڈل ٹاون واقعہ میں ناانصافی کا رونا رو رہے ہیں ۔
              , اس ملک کے اس قانوں کے رکھوالو سے بھی میرا یہ سوال ہے کہ اس ملک میں 300 کے قریب توہین رسالت کے مرتکب پھانسی کے ان مجرموں کو اب تک اقوام متحدہ کے اشاروں اور مختلف ملک دشمن آین جی آوز کے سر پرستی کی وجہ سے سزا کیوں نہیں دی گیی ہےجس کو کورٹ نے حکم جاری کیا ہے۔ یہ وہ ملک جہاں  ایک قاتل صدر اور گورنر بن سکتا ہے ۔ایک شرابی کو شہادت کا رتبہ مل سکتا ہے ۔ تو پھر سنو اپکو سلمان تاثیر سے جو ہمدردی کا حق حاصل ہے  مجھے بھی ویسے  میرے آقاِ دو جہان کی ناموسرسالت پر تختہ دار پر پنچنے والے کا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔آج ممتاز قادری کے جنازے کے ساتھ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا،٘دجالی میڈیا کا اور نواز حکومت کا خوب جنازہ نکلا۔تمام مسلما ن بشمول سنی ،بریلوی اوردیوبندیوں،حنفی اور اہل حدیث  کو بلا تفرق اس جنازے میں دیکھ کر ان دیسی لبرلز کی پریشانی اور بھی بڑھ گیی ہوگی، جو برسوں سے اس ملک کو سیکولر بنانے کے لیے محنت کرتے چلے ارہے ہیں۔اور یہ حقیقت بھی ان کو پتہ لگ گیا ہوگا کہ"موم بتی" بٹالین سے اہل جنازہ اج بھی زیادہ ہیں جو اس ملک کی اصل روح ہے ۔اس اتحاد پر یہ جملہ سب اتحادی بھاییوں کیلیے        'اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد'                     ا یک شعر ان دیس لبرلز کےاس نیی محاز پر جو اپنے مریدوں کودو دن سے اس بحث پر لگاےیے ہوے ہیں اور تسلی دے رہے ہیں کہ جنازہ تو اس کا چھوٹا     تھا اس کا بڑا تھا۔ خیر کچھ تو اسلام کی تاریخ کے بارے میں اپکو بھی پتہ چلا.بہلاو و دل کو خوب۔                                                            " ہم کومعلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن               دل کوبہلانے کا غالب یہ خیل آچھا ہے  
               اپنےقلم کے الفاظ کوبامعنی اختتام دیتے ہوے  میں اپ سبہی لوگوں کے سامنے اپنے عزیز صحافی خباب خان کا ایک غور طلب سوال رکھتا ہوں " کہ اگر اس کیس میں گورنرسلمان تاثیر نےگارڈ ممتاز قادری کو گولی مارکر جان لی ہوتی تو کیا اسکو بھی یہی سزا ہوتی۔؟ مجھے جواب دو اگر اپ کے زہن میں اس کالم کے پڑھنے سے سوال پیدا ہوے ہیں۔ تو ان سوالوں کا جواب اس ایک جملے میں دیتا ہوں کہ معافی کیجیے گا یہاں مسلہ ممتاز قادری اور سلمان تاثیر کا نہیں بلکہ ناموس  اقا دو جہاں کا ہے۔ بس بھایی میں ایک ناقص لعمل ناقصل عقل انسان ہوں اپکی طرح زیادہ باتیں اتی نہیں ایک ان پڑھ ہی سمجو جاہل ہی کہوجن کو کچی     کلاس سے اب تک ایک ہی شعر کی گہرایی ومطلب سمجھ اتی ہے ۔                                                                                                                                                                                          کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں    یہ جہاں چیزہے کیا لوح قلم تیرے ہیں۔                 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                                

Thursday 7 January 2016


                                          "معافی نہیں چاہتا"    
                  

کہتے ہیں کہ  ایک گاؤں میں ایک کسان کے گھر اچھی نسل کے دومرغیاں تھیں۔دونوں مرغیا ں کافی وقت سے مسلسل     انڈے دیتی رہیں۔ایک دن  بیوی نے کسان سے کہاکہ' دونوں مرغیاںکئی دنوں سے انڈے آس پاس کے پڑوسیوں کے گھر دے رہی ہیں۔اس پر کسان بہت پریشان ہوا،ظاہری بات ہےکہ" انڈے دینی والی مرغیاں باقی مرغیوں سے خور اک بھی قدرے ذیادہ کھاتی ہیں"" ۔کسان عقل والا تھا، اس نے ایک ترغیب سوچی کہ کیوں نہ دونوں مرغیوں کو آس پاس کے پڑوسیوں کے ہا ں بیچ دوں ،دانہ بھی بچ جاییگا اور کمائی بھی اجایئگی۔اسی طرح اگلے دن دونوں مرغیوں کو پڑوسیوں کے ہاں بیچ ایا اور ان پیسوں سے اگلے دن اورتین مرغیاں خر ید کرلایا۔یہ تو ہوا کسان کے گھر کا حال، لیکن جب سے میں صا حب شعور ہواہوں کچھ ایساہی حال وطن عزیز اورکئی مسلم ممالک کابھی ہے۔اس موضوع پر لکھنے سے پہلے میرے ایک عزیز صحافی سلمان درانی صاحب سے گفتگو ہورہی تھی ،کہ اس کالم کے لکھنے کی گستاخی کرنے کے بعد میرے دوستوں کی  فہرست کافی حد تک مختصر ہونے والی ہے ۔اس نے مسکراتے ہوئے بولا"یہ دھماکہ کر ہی لو"۔خیرموضوع کی طرف آتے ہیں ،پچھلے اتوار کی رات بڑے عالمی نجی چینل کی سرخیوں کو سنا تواندازہ ہواکہ دو مسلمان ٹھکیدار یعنی سعودی اور ایران کی دشمنی ایک خطرنا ک رخ اختیار کر گییٔ ہے اور ایک دوسرے کے خلاف اور کھل کرائی ہے۔اس کہانی میںیہ خطرناک موڑتب ایا جب سعودی حکومت نے46 لوگوں کا سر قلم کیا، جن میں شیعہ رہنما شیخ نمرالنمر بھی شامل تھے۔شیخ ال سعودحکومت کے شدید ناقدین میں سے تھے ۔ شیخ کی پیدایٔش1959میں سعودی عرب کے صوبہ قطیف میں ایک چھوٹے سے گاوں میں ہوییٔ تھی ،اپنی تعلیم اس وقت کے بڑے شیعہ مر ا کزتعلیم  ایران،شام اورعراق میں مکمل کی ۔سعودی عرب میں صوبہ عوامیہ اور س کا مرکزقطیف  میں ہمیشہ "آل سعود "حکومت کے خلاف مزحمت اور ٹکراو موجود رہا ہے۔شیعہ سعودی عرب کے15 فیصد ابادی ہے اور مشرقی صوبہ قطیف اور عوامیہ میں شیعہ مکتب فکر کے لوگ 80فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔ یہ دونوںصوبے تیل کے ذخایر ٔ کی وجہ سے سعودی عرب کے لیۓ نہایت اہم ہیں۔ان صوبوںمیں سعودی حکومت کے خلاف تحریک ایران میں"  اسلامی انقلاب"  آنے سے پہلے موجود ہے۔شیخ نمرالنمر جوانی سے ان تحاریک کا حصہ رہے تھے، لیکن2000یں" بہارعر ب" تحریک کے تناظر میں جاری ہونے والے سعودی تحریک کے سب سے مقبول لیڈر ثابت ہوئۓ۔حکومت مخالف نظریات کے بنائ پر کئی بار قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کیں ،اور جان لیواحملے بھی ہوئے۔2011-2012یں بحرین ا ور سعودی حکومت خلاف مظاہروں  کے بعد شیخ کافی مقبول ہوئے ، اور عالمی سطح کے شیعہ رہنما"  شیخ ایت اﷲ" کے نام سے جاننے لگے ۔شیخ سعودی عرب کے علاوہ ایرن، عراق،شام،لبنان بحرین  اور دنیا بھر کے شیعہ مکتب فکر کے نوجوانوںطبقے میںبے حد مقبول ہوگئے تھے۔2012یں اخری مرتبہ گرفتار ہوئے تو مارچ 2013یں شیخ کے خلاف مقدمے کی کاراوئی شروع ہوئی۔اس طرح2014 کے اخر میں سعودی حکومت نے تصدیق کردی تھی کہ  انہیں دیگرجرائم کے علاوہ مملکت سعودی میں بییرونی مداخلت کی کوشش پر سزائے موت دی جائیگی۔ 
              شیخ پر ہمیشہ سے ایران نواز  ہونے کے علاوہ سعودی اور بحرین میں حکومت خلاف مسلح تحریک کوہوادینے کے الزام بھی تھے۔لیکن شیخ ہمیشہ اپنے تقریر اور تحریر سے یہی تاثردیتا تھا،کہ اسے کسی ریاست کے مخالف  اور ایران کے حامی نہ سمجھاجائے ،اور وہ مسلح طاقت کی بجائے عوامی طاقت کے حامی ہیں ۔وہ پہلے شیعہ رہنماتھے، جو شام میں بشارلاسد حکومت کے مخالف تھے اورآزاد خودمختار  "کردریاست "کے حامی تھے۔  خیر چھپن سالہ شیخ نمرالنمر کا  2 جنوری2016وجب سر قلم کردیاگیاتو حسب راویت وہی ہواجسکی توقع تھی۔یاد رکھیںکہ سعودی عرب میں مجرموں کاسر قلم کرنے کے بعد انکی لاشوں کو عوامی مقامات پر لٹکانے کا غیر اسلامی روایت پائی جاتی ہے۔دنیابھرمیں زبردست احتجاجی ریلیاں  نکالی گیی جوکہ عالمی میڈیا کی بھی خوب زینت  بنئں ۔ایران اور پھر عراق میں سعودی سفارتخانوں پرحملہ ،سعودی وزیر خارجہ کا ایران سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان،سفارتی عملے کو45 گھنٹے میں ایران چھوڑنے کاحکم۔کویت اور سوڈان نے بھی اسی رات اپنے دوست ٹھکیدارسعودی کادل رکھنے کیلئے ایران سے سفارتی تعلق ختم کرنے کے اعلان کیئے۔کتنی افسوسناک فیصلہ ہے ،ایک اسلامی ر یاست کااس حدتک چلے جاناکہ دوسری اسلامی ریاست سے سفارتی تعلق ختم کرنا،گویااپنی کمزورسفارتکاری پرناکامی چھپاناہے۔رات کوعراقی میڈیاپر یہ خبر آئی کہ" " حزب اﷲ""سمیت وسطی ایشیائ کے تمام شیعہ مسلح جماعتوں نے سعودیہ سے شیخ نمر کے موت کا بدلہ لینے کا اعلان کردیا۔ سماجی ویبسایٹس پر ایک دوسرے کے خلاف  جھوٹی تصویروں اور ویڈیوزکوپروپگینڈاکے طورپرخوب استعمال کیا،جوہمیشہ سے راویت رہی ہے۔میرے مطابق شیخ کو پھانسی دینا گویااس خطے میںایک  مری ہوئی تحریک میںجان ڈالنا ہے ۔جی ہاںیہ و ہی تحریک ہے جو"عرب بہار"کے نام سے لیبئیائ سے ہوتے ہوئے شام،مصر،بحرین یمن اورپھر سعودی عرب میںوقفہ وقفہ سے اٹھتی رہی،لیکن اب یہ زوردار  طریقے سے اٹھے گی اور ان دونوں ٹھکیداروں کوبھی لپیٹ میں لے گی ۔قاریئن گرا م لہذا یہ با ت ذہن نشیں کرلیں,کہ جس کے کہنے پر شیخ کو پھانسی اورسفارتی تعلقات ختم کئے گئے،اس کے ہی کہنے پر سفارتخانہ جھلایاگیااور  "حزب اﷲ"سے انتقام لنے کااعلا ن کروایاگیا۔خیرآپ تو جانتے ہیں دشمن, کو۔افسوس کی بات ہے کہ یہ دونوں ٹھکیدارکبھی دماغ استعمال نہیں                  کرتے بلکہ خوداستعمال ہوجاتے ہیں۔
           ہمارے وطن عزیز میں بھی وہ طاقت اور بے جا زور ان احتجاجی ریلیوں میں دیکھاگیا،جوکہ شکارپور،ہزارہ برادری اورملک میں کئی جگہ امام بارگاہوں میں بم دھماکوں میں سینکڑوں جانوں کے ضائع ہونے کے بعد نہ دیکھا تھا۔ایک بار پھر سعودی اور ایران نواز آمنے سامنے ،جسمیں ہر طبقے سے تعلق ر کھنے والے لوگوں کے علاوہ ہمارے ادبی اور صحافی بھائی بھی اس کار شیطان میں خو ب سرگرم نظرائے۔یہ لوگ میری نظرمیں کسان کے ان مرغیوں کے طرح  ہیں جو وطن عزیز کے دانہ پانی سے سےر ہو کر ان دو ٹھکیداروں کیلئے سڑے انڈے دے رہے ہیں،جس سے وطن عزیز کی فضائ دن بہ دن خراب ہوتی جارہی ہے۔ سعودی وایران کے ٹھکیداری اور زور ازمائی کی وجہ سے  شام،یمن،نائیجیریائ اورعراق کے لوگ توتکہ بن رہے ہیںبلکہ بیشتر مسلم ممالک کافضائ بھی خراب ہے۔ لیکن دنیابھرمیں صرف جمعہ کے نمازی مسلمان اپنے اپنے ہی مملکت میں بیٹھ کر ہم عقیدہ ٹھکیدارکا  بھرپوروفاداری، پھر بھی خوب نبھارہے ہیں۔اسی وفاداری میں اندھے ناداں اپنے ہی مملکت میں ایک دوسرے کے خلاف محازکھوؒل کرایک دوسرے کے ایمان ،عزت اور عقیدہ پرہرطرح سے حملہ کرتے ہیں۔یہ اخلاق  بھی ان ٹھکیداروں کے نصاب سے جوڑے کچھ بڑوں کے سکھائیں ہوئے ہیں۔ایسے نادانوں پرہنسنے کوبھی دل کررہا ہے اور تعجب بھی ہورہاہے، کہ ہم اپنے دین اسلام کو دوملکوں کے پالیسیوں اور نظریات کے نظر کر رہے ہیں،جن کووہ اپنے نصاب میں شان اھلیبیت علیہماالسلام اور حرمین شریفین کانام دیتے  ہین ۔اورنصاب کے یہ جادوئی الفاظ ان نادانوںکے  مزاج پرخوب اثردکھاتی ہے۔اس پرایک شعرذہن میں ارہاہے کہ
                                           دنیاکے ہیںنہ دین کے،دلبرکے ہو گئے 
                                            ہم دل سے کلمہ گوکسی کافر کے ہوگئے
اس کے علاوہ وطن عزیز سمیت تمام مسلم مما لک کی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیاپربھی نظریاتی ویڈیوزاور تحاریر بھی ان نادانوں کے خو ن کوخوب گرمارہی ہیں۔لہذاوطن عزیز سمیت تمام مسلم ممالک کوچاہیے ،کہ کسی ایک ٹھکیدار کی بار بار اتحادی بننے کے ڈرامے کوترک کرتے ہوئے ،دونوں ٹھکیداروں میں ثالثی کرداراداکریں اور انکے باہمی مسائل کوبھرپورطریقے سے حل کریں۔یہ آگ عرب دنیا  سے ہماری طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور یہاں پہنچی تو اسکی شدت یہاں پرکئی گنازیادہ ہوگی کیونکہ ہم جانتے ہیں ،کہ یہاں پڑھے لکھے جاہل،فرقہ پرست اور ذہنی پستی کے مالک لوگوں کے تو کمی ہے نہیں ۔ہمارے ملک میںاسی سال  لاہور سے داعش اور پارہ چنار سے 'حزب اﷲ'اور 'لوائلزینبونؑ' میں شامل ہونے کیلئے جانے والے لوگ بھی اس گندی ٹھکیداری کی ایک کھڑی ہے۔پچھلے چند ماہ سے ہم اس اگ کی تپش و اثرات سانحہ صفورا،سانحہ ہزارہ اورپارہ چنار دھماکوں کے صورت میںبھگت چکے ہیں۔حکومت وقت پربھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وطن عزیزمیں سعودی ایران ٹھکیداری کوفروغ دینے والوں کےلئے کھڑے قوانین بنائیں ورنہ کسان کی طرح ترغیب سوچ کران مرغیوں کوان کے اقاوں کے ہاں چھوڑنے کا بندوبست کرے۔میرے تحریر میں مجھے مرچ اور تیزاب کا ذیادہ استعمال اچھالگتاہے۔ اگرکسی کوہضم نہیں ہورہاوہ بیشک اپنی رائے بلاخوف مجھے سماجی و یبسائٹس پر اپنے اندازسے دے سکتاہے، جیسا اسکا دل کرے ۔کیوں کہ اس قلم کو اٹھانے کی گستاخی کرنے سے پہلے میں اپنی عزت اس قلم کی سیاہی بناچکاہوں۔لہذاایسی گستاخی کی ہمت میں با ربار کرونگا۔ معافی نہیں چاہتا۔
                                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔