Friday 3 June 2016

          "ان سنی حقیقت"                                          

        اج قلم  اٹھاتے ہوئے کچھ عجیب سی کیفیت ہے ۔صبح سے سوچ رہا ہوں کسی اور عنوان کو زیر قلم کرتا ہوں یا کوِئی اور مسلے پر لکھتا ہوں پر نہِیں شاید میں اپنے اپ کو تو منوا لونگا لیکن میرے ساتھ جڑے لوگ جو اس حقیقت سے نا اشنا ہیں ان کو اس  کے بارے تفصیلا اگاہ کرنا میری نا صرف صحافتی اصولوں کی پاسداری ہے بلکہ ایک زمہ داری بھی۔میں ہمیشہ شوقیہ لکھتا ہوں نہ کبھی پڑھنے والوں کی تعداد سے غرض رہا ہے اور  نہ ہی کبھی مجھ پر اعتراض کرنے والوں سے ۔ہمیشہ ایک عنوان پر لکھنے سے پہلے اس پرکافی گہرایی سے ریسرچ کرتا ہوں اور اس مسلے کے جڑوں کا بخوبی سے جایزہ لیتا ہوں۔مجھے پتہ ہے میں اردو گرائمر  کی ساکھ اور خو بصورتی  کو اپنے قلم سے کافی نقصان پہنچا رہا ہوں۔ پرپھر بھی  جو لوگ میرے کم تجربے کے باعث میرے لکھی ہوی تحریروں کو اپنے قیمتی وقت میں غور سے سمجھتے ہیں شکرآ ان کے لیے۔
           اپنے موضوع کی طرف اتے ہیں ۔اپنے تعریف کے لیے پھر کبھی وقت نکالونگا۔جی تو کویی ایک سال پہلے میں نیٹ پر ُی ٹی وی کا ایک معروف صحافی کسانہ صاحب کا پروگرام دیکھ رہا تھا جس میں میہمان سابقہ وزیر مذہب امور حامد  سعید کا ظمی صاحب تشریف فرما تھے ۔فون لاین پر محسن پاکستان ڈاکٹر اے کیو خان صاحب تھے ۔کسانہ صاحب کے سوال پر ڈاکٹر صاحب نے ایک لمبی چوڑی گفتگو کی جس کا مختصرَ نچوڑ یہ ہے کہ "حامد  سعید صاحب کو میں خود جانتا ہوں ۔اپ ایک اچھے انسان ہیں مخلص ہیں اپنے کام میں کبھی کبھی جزباتی ہوجاتے ہیں ۔ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ حامد  سعید صاحب نے خود مجھے  کہا ہے کہ میں حرم پاک میں مدینہ پاک میں جاکر کھڑا ہو کر یہ بیان دینے کے لیے تیا ر ہوں کہ میں نے ایک پایی بھی بد گمانی سے نہیں کما ئی ۔ "ڈاکٹر صاحب کی پندرہ بیس منٹ کے بعد کال بند ہوتے ہی کاظمی صاحب ابدیدہ بھی تھَے اور لڑکھڑاتے الفاظ میں یہی  کہ رہے تھَے کہ میرے لیے ڈاکٹر صاحب کی گواہی کافی ہے اور ساری زندگی یہی میرے لیے سند رہیگا ۔اس کے علاوہ کاظمی صاحب بیشتر پروگراموں میں یہی کہہ چکے ہیں کہ میں یہ نہیں کہتا کہ میرے دور میں بد گمانی نہیں ہوی لیکن جو کچھ ہوا ہے اس میں میرا بس نہیں اور نہ ہی میری سر پرستی حاصل ہے ۔ماہنامہ نوائے انجمن لاھور کے چیف ایڈیٹر رضاحسین حیدری کے مطابق  ایک کام کروانے کے عوض کاظمی شاہ صاحب کے ایک قریبی نے مجھ سے رشوت طلب کی تھی اس وجہ سے میں یہ سمجھتا تھا کہ ان کے دور میں کرپشن کا بازار گرم رھامگر میں یہ بھی جانتا تھا کہ کاظمی شاہ صاحب بذات خود اس کرپشن میں ملوث نہیں دراصل انہیں  مسلکی اگ میں جھلایا جارہا ہے ۔
                  اصل بات جس کی وجہ سے کاظمی شاہ صاحب پر سارا نزلہ گرایا گیا وہ یہ ھے کہ جب اس وقت کا وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سعودی عرب کے دورہ پر گیا تو سعودی گورنمنٹ نے گیلانی شاہ صاحب کو آفر دی کہ آپ تمام پاکستان کےتمام سکولوں کالجوں میں اسلامیات کے مضمون کو لازمی قرار دیں اس مضمون کو پڑھانے کے لئے جتنے ٹیچر پروفیسرز رکھے جائیں گے ان کو تنخواہ سعودی گورنمنٹ دے گی گیلانی شاہ اس تجویز کو لے کر پاکستان آگئےاور اپنے سعودیہ کے دورے پر کابینہ میں بریفنگ کے دوران بتایا کہ سعودی گرنمنٹ کی طرف سے یہ آفر ھے اس پر سید خورشید شاہ نے پوچھا کہ نصاب کون سا پڑھایا جائے گا تو بتایا گیا کہ نصاب سعودی گورنمنٹ کی مرضی کا ھوگا اس پر سید خورشید شاہ نے کہا کہ یہ تو ہماری آنے والی نسلوں کو ایران و سعودی اگ میں جھانکنے کی سازش ھے اس پر سید حامد سعید کاظمی شاہ صاحب کھڑے ھوئے انہوں نے کابینہ میں سعودی گورنمنٹ کی اس تجویز پر شدید احتجاج کیا اور یہ تجویز کابینہ نے اکثریت رائے سے نامنظور کردی اس وقت کابینہ میں اعظم ھوتی 0جو اس وقت جمیعت علماء اسلام ف کے سرگرم رہنماووں میں تھَے وہ بھی تشریف فرماں تھے۔ اس نے باہر نکل کرمولان فضل الرحمان صاحب سربراہ جمعیت علماء اسلام کو ساری بات بتائی اور خورشید شاہ صاحب جنہوں نے سب سے پہلے احتجاج کیا تھا ان کا نام چھپا کر سارا مدا کاظمی شاہ صاحب پر ڈال دیا مولانا فضل الرحمان صاحب نے سعودی گورنمنٹ کو ساری بات بتائی تو سعودی عرب والوں نے علامہ کاظمی شاہ صاحب کو مزا چکھانے کا عندیہ دیا اور کہا حج کا موسم آنے دو دیکھ لیں گے جب حج کا موسم قریب آیا تو وزارت کے نمائندے مکہ اور مدینہ میں رہائشوں کا وزٹ کرنے گئے سعودیہ والوں نے جو رھائش پاکستانی حاجیوں کو دینے کا کہا وہ سعودی شہزادوں کی ملکیت ہیں وہ دور بھی تھیں اور مہنگی بھی یاد رھے ہر سال یہ رھائش لینے کے بدلے سعودی شہزادے وزارت کے نمائندوں کو بھاری رشوت دیتے تھےجب کاظمی شاہ صاحب کے علم میں یہ بات آئی تو علامہ کاظمی یہاں بھی ڈٹ گئے اور وزارت کے نمائندوں کو قریب تریں رھائشیں لینے کا حکم دیا جب یہ بات سعودی شہزادوں کے علم میں آئی تو ان کی دشمنی اپنے عروج پر پہنچ گئی اور انہوں نے کاظمی شاہ صاحب کو نقصان پہنچانے کا حتمی فیصلہ کرلیا اور وزارت کے نمائندوں (راوشکیل وغیرہ)سے ساز باز کرکے ذیادہ فاصلے والی رھائشیں ذیادہ ریٹ پر پاکستانی گوورنمنٹ کو دے دیں اورچندسعودی نواز حاجیوں کے زریعہ دھرنا کا ڈرامہ رچایا سعودی گورنمنٹ نے اپنی نگرانی میں چند سعودی نوازوں کے زریعے احتجاج کروایا اور پھر خود ھی کاظمی شاہ صاحب کے خلاف خط لکھ کر وعدہ معاف گواہ بن گئے ادھر مولانا فضل الرحمن صاحب جو کہ حج آپریشن کو وزارت سیاحت کے زیر اہتمام کرنے کا کئی دفع مطالبہ کر چکے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ حج آپریشن کو وزارت مذہبی امور سے لے کر وزارت سیاحت کے زیر اہتمام کر دیا جائے جس پر ان کے چھوٹے بھائی لطف الرحمان صاحب براجمان ھوں انہوں نے سعودی گورنمنٹ سے ساز باز کرکےاپنے کارندے اعظم ہوتی صاحب کو اس کیس کے پیچھے لگا دیاجس کو بعد میں یہی وزارت دی گیی ۔بات یہاں ختم نہِں ہوتی بلکہ کاظمی صاحب کے عزیزوں کے مطابق اس کھیل کو بہت صفایی سے کھیلا گیا۔کاظمی صاحب نے سپریم کورٹ سے اپیل کی تھی کہ اسکا فیصلے کا اوپن ٹرایل کے بطور پورے قوم کے سامنے ٹی وی سیٹ پر ان لاین کی جایے پر عدالت کو یہ منظور نہیں تھی ۔عدالت اعطمی نے بلا اخر فیصلہ سنا دیا۔
    اج کاظمی صاحب کے ایک چاہنے والے سے بات ہوی تو اس نے یہ کہا کہ چونکہ بینچ میں فیصلے دینے والا معزز جج صاحب تبلیغِ جماعت سے وابسطہ ہیں اور کیی بارچھلہ کیلیے تبلیٰٰع میں گیَے ہیں اس لیے اس نے ایسا فیصلہ دیا جس کی اس سے توقٰع تھِی۔خیر میں ایسے باتوں کو فیصلے کا بنیادءی وجہ نہیں سمجھتا اور نہ ہی میں کسی مسلک پر یقین رکھتا ہوں۔ میں اس فیصلے پر سپریم کورٹ کے وقار کو برابھلانہیں کہتا  کیونکہ سپریم اتھارٹی ایک فیصلہ دیتے ہوے کافی محنت کرینگے اور انصاف کے ہر پہلو کو مد نظر رکھ کر فیصلہ دینگے بے شک۔میں صرف  یہ کہنے کا حق محفوظ رکھتا ہوں کہ ۸۳ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں واضح لکھا ہے کے کاظمی صاحب پر بد عنوانی اور کرپشن ثابت نہِں ہو سکی ۔بلکہ ان کو یہ سزا بد انتظامی غفلت اور نااہلی کے بنا پر دی گیی ہے ۔اگر یہ درست ہے تو اس روشنی میں  ایف اہی اے اور سپریم کورٹ کے معز ز حضرات سے یہ سوال ہے  کہ کیا ملک کے تمام محکموں کے انتظامات بلکل ٹھیک اور درست ہیں؟اس فیصلے میں اور بھی لوگ تھے جسمیں یوسف رضا گیلانی کے فرزند بھی تھے وہ کیوں بچ نکلے؟کیا اس فیصلے سے مسلکی منافرت نہیں پھیلیگی ؟