Friday 27 May 2016

                                 
                             "گیٹ ویل سون"  
                                       
                                                                   
ہم بحیثیت قوم ایک ایموشنل قوم ہیں جن کو جذبات کے  ساتھ ساتھ  بھولنے کی بھی بیماری ہے۔ اس ملک میں رہنے والوں کی ادھی سے زیادہ زندگی  انہی ظالم حکمرانون کی وجہ سے بے نمک اور درد بھری گزرتی ہے ۔بجلی جائے،پانی نہ آئے،سگنل بند ہوں یا پھر روزمرہ زندگی میں استعمال کی کوئی بھی چیز مہنگی ہو تو گھر کے سبھی لوگ با آواز بلند یک زبان ہو کر پہلے ہی بد دعا صدر اور وزیر اعظم کو دیتے ہیں۔لیکن پانچ سال بعد آرام سے انکے باتوں میں اکر موم کی طرح پگل جاتے ہیں۔
           یہ ملک ہے امین فہیم جیسے بددیانت انسان کی جس کے مرنے پر سبھی صحافی برادری رشتہ دارانہ جذبے کو دل میں لیے تعزیتی کالم کیی کیی دن تک لکھتے رہے ۔پر مجھے آج بھی شکر ہے کوئی دکھ نہیں اور نہ کبھی ہوگا۔ جس بندے نے اس قوم کو اتنا کھایا اتنا کھایا کے خدا نے بھی اسکی چربی لندن میں پگھلایی اور سارا گند وہی  نکال کراسکی انکھین بند کرادیںایک اور اہم بات یہ کہ ۔ہمارے اکثر حکمرانوَں کے مرض لموت میں یہ لندن والا پارٹ ضرور چلتا ہے۔
          اس ملک و قوم کے ساتھ جو بھی برا کرے خواہ وہ میرا رشتے میں سکا بھایی ہو آللہ اسکے ساتھ اسکے کتاب کے مطابق حساب کرے ۔بد دعا نہیں دیتا،مزاج ایسا نہیں ۔پر بڑے ندامت کے ساتھ اکثر ہمارے صحافی بھایی کچھ زیادہ ایموشنل  بن کر سماجی ویبسایٹس پر "گٹ ویل سون" لکھے جارہے ہیں ۔خیریت ہےمجھے لگتا ہے اپکے اپنے کچھ مقاصد تو ہونگے نیہں ۔ لیکن پھر بھی اس ملک کو دیوار سے لگانے والوں کو اپنے دعاووں سے صحت یاب کر کے اس ملک کو اور بر باد دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ اپکی حب لوطنی ہوگی ۔ میرا جاہل ضمیر اسی ایک مشورے پر آڑھا ہے کہ انکی صحت جانے اور آللہ جانے۔رب کائنات کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ اس سے زیادہ مجھے فکر ہو رہی ہے تھر میں  بھوک اور افلاس سے لڑنے والے سبھی ان غریب لوگوں کی اور ان بیمار بچوں کی جن کیلیے نہ دوا ہے اور نہ دعا،اگر ہے تو صرف اس گندی جمہوریت کی دغآ۔
    میری بس یہی دعا ہے کہ اپ سبھی کے" گیٹ ویل سون" اس ملک سے نہ نکلے بلکہ اسی  ملک میں پڑے سبھی ضرورت مند لوگوں کے کام ایے ۔امین 

Sunday 8 May 2016

          "پاگل مائیں   

 اگست 2013  کی بات ہے رمضان کے اخری عشرے کے کوی پانچواے روزے کے سحری کے لییے بنی بازار کے ناشتے کا دل کیا تو جیب نے اس شاہانہ سحری کا اجازت نہ دیا  ۔ خیر کویی تین بجے میں  ہاسٹل سے نکلا ۔اپنے دماغ میں بہت سے سستتے خوراک کی اییٹمز کو تر تیب دیا لیکن۔بلاخر دہی اور جوس پر اکتفا کرتے ہوے اگے اہستہ اہستہ مارکیٹ کی طرف چل دیا۔سکستھ روڈ فلای اور کے ساتحھ والے پلازے کے بیسمنٹ میں ایک دوکان تھی جس کے ساتھ اپنا کھاتے کا انتظام تھا۔کٹھن مالی حالات میں اسی دوکان کے سہارے مہینہے کے اخر تک اپنا پان پیڑی یہی سے عنایت ہوتی رہتی تھین۔چند ہی دیر بعد دوکان کے کاونٹر پر تھا۔دوکاندرار نے تیزی سے انگلیاں میرے ہاتھ سے لگاتے ہوے رویتی سلام کیا اور پوٹھوہاری میں بولا 'الہ خاناں تساں کے چایےنا' میرے ساتھ ہی داییں ہاتھ پر ایک پختہ عمر کی خاتون ہاتھ میں کچھ ڈبے دودھ کے اور کچھ ادھ ایک لفافے میں دہی پکڑ کر  کھڑی تھی ۔وہ دوکاندار سے کہ رہی تھی کہ "بھایی جلدی کرو سحری کا وقت جارہا ہے"۔کافی غور سے اس کی طرف دیکھا تو انکھوں کو اشکوں نے گیلا کردیا  یہ انسو اپ یقین مانیں کہ کافی کم موقعوں پر میرے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔

         ہاں یہ خاتون دراصل یہاں مری روڈ پر بیشتر شام کے اوقات کھڑیں معاشرے کے ان بے بس خواتین میں سے سب سے زیادہ جان پہچان والی تھی،جو اپنے مجبوریوں کو لگام دینے کے لیے اپنے جسم کو انگارون پر رکھتی ہیں ۔جن کو ہمارا معا شرہ حرف عام مین 'رنڈی'کا نام دیتا ہے۔دوکاندار نے سامان پکڑاتے ہوے اسے بقایا بھی دیا، جس کے سااتھ ہی وہ چلی گیی۔ اس کے جانے کے بعد میں اور دوکاندار ہی رہ گیے تھے میں نےپوثھا بھایی یہ خاتوں پورےرمضان یہ سحری کا سامان یہان سے لے کے جاتی ہے اس نے کہا  "ہاں خاناں" ۔ میں اگلا سوال کرتا اتنے میں دوکاندار نے جوس کاونٹر پرمیرے سامنے رکھتے ہوے  کہا "خان یہ سید زادی ہے اور اس نے مجھے بتایا ہے کہ میں اپنے گھر والون کو یہی بتاکر نکلتی ہوں کہ کمرشل مارکیٹ میں ایک کال سینٹر کے ساتھ رات کے شفٹ کیلیے بطور ریسپشنسٹ کام کرتی ہوں۔گھر میں ایک بڑا بیٹا ہے جو ذہنی مریض ہے باقی ایک جوان بیٹی اور دو بیٹے ہیں جو کہ میٹرک اور ایف اے میں پڑھتے ہیں۔شوہر کا انتقال کو چار سال ہوے ہیں۔تب سے گجر خان سے اکر یہاںں پنڈی میں رہ رہی ہے۔اور دو سال سے اس سامنے مری روڈ سے وابستگی ہے توچایے چینی کے لیے یہں پر اتی ہے۔میرے ذہن میں یہی سوال تھے جو ابھی اپ لوگوں کے ذہن میں پیدا ہویے ہیں لیکن چند دیر کے لیے سوچا تو میرے  ضمیر نے میرے ذہن میں ہر سوال کا جواب دے کر تسلی کرادی۔ماں کی قخیل اور محبت کا خطرناک روپ اس دن دیکھ کر احساس ہوا تھا اور وہ یہ کہ ایک ماں اپنے اولاد کی محبت اور پرورش  میں کس طرح اپنے روح کو ہر شام داغ دیتی ہے۔

        ہم میں سے شاید اکثر  لوگ جان کر  کبھی غور کرنے کی زحمت بھی نہ کی ہو کہ جن کو ہم بیہودہ نام دے کر پکارتے ہیں کیا ایے سید زادیوں کے گھروں میں جھانک کر دیکھا ہے جن کو اپنے اولاد،بھایی بہنون کے تعلیم اور بوڑھے ماں باپ کے علاج کے لیے معاشرے کے ظلم اور اپنوں کے بے رخی نے اس مقام پر لاکر کھڑا کیا ہوتا ہے۔یہ تو ایک ماں ہے اس طرح کتنی ماییں ہیں جو اسلامی "جمہوریہ پاکستان" کے کونے کونے میں اپنے اولاد اور گھر کے  مجبویوں کے لیے روز روح پر زخمم کھاتیں ہیں۔ماں کے بارے میں میرےنانی مجھے کہتی ہیں کہ "بیٹا ماں ایک واحد وہ شتہ ہے جو ہر صورت میں اپنے اولاد کو اپنے سے زیادہ محبت ہمدردی اور خیال رکھتی ہے" ۔نانیی کہتی ہے کہ" اگر ایک ماں چڑیل بھی بن جایے تو بھی اپنے اولاد کونقصان نہیں پہنچاتی"۔

         بیٹا کیسے ہو؟ کہاں تھے ؟کھانا کھایا ہے ؟ کیوں نہیں سویے ابھی تک ؟حالانکہ ہم25 یا35کے ہوں یا پھر60,70کے ماں بچپن سے وہی چند سوال دہراتیں رہتی ہین کیونکہ ماں کو احساس اتنا کہ  اولاد کو نظر سے اوجھل ہوتے ہی اسے واقع میں سکان نہیں ہوتا۔میں تو کہوں کہ ماں  کا پیار ہی ایک سچا پیار ہے ورنہ ہم ۔۔ بھیی ہم تو ہر پل بدلتے رہتے ہیں کبھی پیسے کے لالچ سے تو کبھی بیوی بچوں کے غرض سے اور کبھی جاییداد کی اڑھ میں اس ماں پر زباں درازی کرتے ہیں۔ اکثر اس مان کو یہ بھی سننا پڑھتا ہے کہ" ماں تو نیہں جانتی "جو زبان پہلے  دن صرف رونے کے سواء کچھ نیں جانتی تھی۔ جن چیخنے اور رونے کی اواز سے باپ بہن بھای نیند میں سرہانہ کھانوں پر رکھ لیتے تھےاس کے لیے ہمارے ماوں نے کتنے راتِیں قربان کی ہیں۔ صرف ماں ہی ہوتی تھی جواس رونے میں بھی اور طوطلے زبان سے نکلے ہر لفظ سے  ہمارے مقاصد  جان لیتی تھی وہ اج واقعی میں نہیں جانتی یا ہم کچھ زیادہ بڑھے ہو گیےہیں۔شاید ہم کچھ زیادہ بڑھے ہوگیے ہیں۔

واقع میں ایسا ہی کچھ ہے کہ  لفظ" ماں" کواپ کسی بھی زبان میں پکارو وہ ہونٹوں سےہی شروع ہوگا۔ماں کو بیاں کرنے کے لیےزیر قلم الفاظ بھی کم پڑ جاتے ہیں ۔اجکل صورتحال کچھ یوں ہے کہ ہم مدرز ڈے کے بارے کسی ٹی وی یا ریڈیو پر ہی دوسروں سے سن کر کوی ایک دو گانے سن لیتے ہیں۔اسی طرح پھر سماجی ویبسایٹس پر اپنے تصویر رنگین کر کے ماں کو خراج عقیدت پیش کرد یتے ہیں یا پھر کسی اور کا اقوال زرین اور واقعات پڑھ کروقتی طور پر جزباتی ہوجاتے ہیں ۔ پورا سال تو کچھ اورہی ماحول ہوتا ہے بس نہ پوچھیے سب پتا ہے اپکو بھی اور مجھے بھی ۔وہ بھی اپکے ہر بات سے اشنا ہے اور اپکے ہر کام  کو بھی خوب جانتی ہے لیکن اگنور کرتی ہے کہ کہی "فلانے کے آبے ' کو پتا چل نہ جاے نہیں تو قیامت ڈھا دے گا۔تم لوگ مانو یا نہ مانو میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ میں دنیا کا نالایک ترین بیٹا ہوں لیکن یہ بات میں امی کے سامنے نہیں کر سکتا کیونکہ وہ یہی  کہے گی 'آللہ نہ کرے" ۔میرا بیٹا تو ایسا ہے میرا بیٹا تو ویسا ہے،مطلب بڑا "پنے خان"۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا بولیں پھر وہ اصرار کرے گی۔پاگل مائیں جو ہیں۔

           
              ......................................................................................................................................