Thursday 7 January 2016


                                          "معافی نہیں چاہتا"    
                  

کہتے ہیں کہ  ایک گاؤں میں ایک کسان کے گھر اچھی نسل کے دومرغیاں تھیں۔دونوں مرغیا ں کافی وقت سے مسلسل     انڈے دیتی رہیں۔ایک دن  بیوی نے کسان سے کہاکہ' دونوں مرغیاںکئی دنوں سے انڈے آس پاس کے پڑوسیوں کے گھر دے رہی ہیں۔اس پر کسان بہت پریشان ہوا،ظاہری بات ہےکہ" انڈے دینی والی مرغیاں باقی مرغیوں سے خور اک بھی قدرے ذیادہ کھاتی ہیں"" ۔کسان عقل والا تھا، اس نے ایک ترغیب سوچی کہ کیوں نہ دونوں مرغیوں کو آس پاس کے پڑوسیوں کے ہا ں بیچ دوں ،دانہ بھی بچ جاییگا اور کمائی بھی اجایئگی۔اسی طرح اگلے دن دونوں مرغیوں کو پڑوسیوں کے ہاں بیچ ایا اور ان پیسوں سے اگلے دن اورتین مرغیاں خر ید کرلایا۔یہ تو ہوا کسان کے گھر کا حال، لیکن جب سے میں صا حب شعور ہواہوں کچھ ایساہی حال وطن عزیز اورکئی مسلم ممالک کابھی ہے۔اس موضوع پر لکھنے سے پہلے میرے ایک عزیز صحافی سلمان درانی صاحب سے گفتگو ہورہی تھی ،کہ اس کالم کے لکھنے کی گستاخی کرنے کے بعد میرے دوستوں کی  فہرست کافی حد تک مختصر ہونے والی ہے ۔اس نے مسکراتے ہوئے بولا"یہ دھماکہ کر ہی لو"۔خیرموضوع کی طرف آتے ہیں ،پچھلے اتوار کی رات بڑے عالمی نجی چینل کی سرخیوں کو سنا تواندازہ ہواکہ دو مسلمان ٹھکیدار یعنی سعودی اور ایران کی دشمنی ایک خطرنا ک رخ اختیار کر گییٔ ہے اور ایک دوسرے کے خلاف اور کھل کرائی ہے۔اس کہانی میںیہ خطرناک موڑتب ایا جب سعودی حکومت نے46 لوگوں کا سر قلم کیا، جن میں شیعہ رہنما شیخ نمرالنمر بھی شامل تھے۔شیخ ال سعودحکومت کے شدید ناقدین میں سے تھے ۔ شیخ کی پیدایٔش1959میں سعودی عرب کے صوبہ قطیف میں ایک چھوٹے سے گاوں میں ہوییٔ تھی ،اپنی تعلیم اس وقت کے بڑے شیعہ مر ا کزتعلیم  ایران،شام اورعراق میں مکمل کی ۔سعودی عرب میں صوبہ عوامیہ اور س کا مرکزقطیف  میں ہمیشہ "آل سعود "حکومت کے خلاف مزحمت اور ٹکراو موجود رہا ہے۔شیعہ سعودی عرب کے15 فیصد ابادی ہے اور مشرقی صوبہ قطیف اور عوامیہ میں شیعہ مکتب فکر کے لوگ 80فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔ یہ دونوںصوبے تیل کے ذخایر ٔ کی وجہ سے سعودی عرب کے لیۓ نہایت اہم ہیں۔ان صوبوںمیں سعودی حکومت کے خلاف تحریک ایران میں"  اسلامی انقلاب"  آنے سے پہلے موجود ہے۔شیخ نمرالنمر جوانی سے ان تحاریک کا حصہ رہے تھے، لیکن2000یں" بہارعر ب" تحریک کے تناظر میں جاری ہونے والے سعودی تحریک کے سب سے مقبول لیڈر ثابت ہوئۓ۔حکومت مخالف نظریات کے بنائ پر کئی بار قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کیں ،اور جان لیواحملے بھی ہوئے۔2011-2012یں بحرین ا ور سعودی حکومت خلاف مظاہروں  کے بعد شیخ کافی مقبول ہوئے ، اور عالمی سطح کے شیعہ رہنما"  شیخ ایت اﷲ" کے نام سے جاننے لگے ۔شیخ سعودی عرب کے علاوہ ایرن، عراق،شام،لبنان بحرین  اور دنیا بھر کے شیعہ مکتب فکر کے نوجوانوںطبقے میںبے حد مقبول ہوگئے تھے۔2012یں اخری مرتبہ گرفتار ہوئے تو مارچ 2013یں شیخ کے خلاف مقدمے کی کاراوئی شروع ہوئی۔اس طرح2014 کے اخر میں سعودی حکومت نے تصدیق کردی تھی کہ  انہیں دیگرجرائم کے علاوہ مملکت سعودی میں بییرونی مداخلت کی کوشش پر سزائے موت دی جائیگی۔ 
              شیخ پر ہمیشہ سے ایران نواز  ہونے کے علاوہ سعودی اور بحرین میں حکومت خلاف مسلح تحریک کوہوادینے کے الزام بھی تھے۔لیکن شیخ ہمیشہ اپنے تقریر اور تحریر سے یہی تاثردیتا تھا،کہ اسے کسی ریاست کے مخالف  اور ایران کے حامی نہ سمجھاجائے ،اور وہ مسلح طاقت کی بجائے عوامی طاقت کے حامی ہیں ۔وہ پہلے شیعہ رہنماتھے، جو شام میں بشارلاسد حکومت کے مخالف تھے اورآزاد خودمختار  "کردریاست "کے حامی تھے۔  خیر چھپن سالہ شیخ نمرالنمر کا  2 جنوری2016وجب سر قلم کردیاگیاتو حسب راویت وہی ہواجسکی توقع تھی۔یاد رکھیںکہ سعودی عرب میں مجرموں کاسر قلم کرنے کے بعد انکی لاشوں کو عوامی مقامات پر لٹکانے کا غیر اسلامی روایت پائی جاتی ہے۔دنیابھرمیں زبردست احتجاجی ریلیاں  نکالی گیی جوکہ عالمی میڈیا کی بھی خوب زینت  بنئں ۔ایران اور پھر عراق میں سعودی سفارتخانوں پرحملہ ،سعودی وزیر خارجہ کا ایران سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان،سفارتی عملے کو45 گھنٹے میں ایران چھوڑنے کاحکم۔کویت اور سوڈان نے بھی اسی رات اپنے دوست ٹھکیدارسعودی کادل رکھنے کیلئے ایران سے سفارتی تعلق ختم کرنے کے اعلان کیئے۔کتنی افسوسناک فیصلہ ہے ،ایک اسلامی ر یاست کااس حدتک چلے جاناکہ دوسری اسلامی ریاست سے سفارتی تعلق ختم کرنا،گویااپنی کمزورسفارتکاری پرناکامی چھپاناہے۔رات کوعراقی میڈیاپر یہ خبر آئی کہ" " حزب اﷲ""سمیت وسطی ایشیائ کے تمام شیعہ مسلح جماعتوں نے سعودیہ سے شیخ نمر کے موت کا بدلہ لینے کا اعلان کردیا۔ سماجی ویبسایٹس پر ایک دوسرے کے خلاف  جھوٹی تصویروں اور ویڈیوزکوپروپگینڈاکے طورپرخوب استعمال کیا،جوہمیشہ سے راویت رہی ہے۔میرے مطابق شیخ کو پھانسی دینا گویااس خطے میںایک  مری ہوئی تحریک میںجان ڈالنا ہے ۔جی ہاںیہ و ہی تحریک ہے جو"عرب بہار"کے نام سے لیبئیائ سے ہوتے ہوئے شام،مصر،بحرین یمن اورپھر سعودی عرب میںوقفہ وقفہ سے اٹھتی رہی،لیکن اب یہ زوردار  طریقے سے اٹھے گی اور ان دونوں ٹھکیداروں کوبھی لپیٹ میں لے گی ۔قاریئن گرا م لہذا یہ با ت ذہن نشیں کرلیں,کہ جس کے کہنے پر شیخ کو پھانسی اورسفارتی تعلقات ختم کئے گئے،اس کے ہی کہنے پر سفارتخانہ جھلایاگیااور  "حزب اﷲ"سے انتقام لنے کااعلا ن کروایاگیا۔خیرآپ تو جانتے ہیں دشمن, کو۔افسوس کی بات ہے کہ یہ دونوں ٹھکیدارکبھی دماغ استعمال نہیں                  کرتے بلکہ خوداستعمال ہوجاتے ہیں۔
           ہمارے وطن عزیز میں بھی وہ طاقت اور بے جا زور ان احتجاجی ریلیوں میں دیکھاگیا،جوکہ شکارپور،ہزارہ برادری اورملک میں کئی جگہ امام بارگاہوں میں بم دھماکوں میں سینکڑوں جانوں کے ضائع ہونے کے بعد نہ دیکھا تھا۔ایک بار پھر سعودی اور ایران نواز آمنے سامنے ،جسمیں ہر طبقے سے تعلق ر کھنے والے لوگوں کے علاوہ ہمارے ادبی اور صحافی بھائی بھی اس کار شیطان میں خو ب سرگرم نظرائے۔یہ لوگ میری نظرمیں کسان کے ان مرغیوں کے طرح  ہیں جو وطن عزیز کے دانہ پانی سے سےر ہو کر ان دو ٹھکیداروں کیلئے سڑے انڈے دے رہے ہیں،جس سے وطن عزیز کی فضائ دن بہ دن خراب ہوتی جارہی ہے۔ سعودی وایران کے ٹھکیداری اور زور ازمائی کی وجہ سے  شام،یمن،نائیجیریائ اورعراق کے لوگ توتکہ بن رہے ہیںبلکہ بیشتر مسلم ممالک کافضائ بھی خراب ہے۔ لیکن دنیابھرمیں صرف جمعہ کے نمازی مسلمان اپنے اپنے ہی مملکت میں بیٹھ کر ہم عقیدہ ٹھکیدارکا  بھرپوروفاداری، پھر بھی خوب نبھارہے ہیں۔اسی وفاداری میں اندھے ناداں اپنے ہی مملکت میں ایک دوسرے کے خلاف محازکھوؒل کرایک دوسرے کے ایمان ،عزت اور عقیدہ پرہرطرح سے حملہ کرتے ہیں۔یہ اخلاق  بھی ان ٹھکیداروں کے نصاب سے جوڑے کچھ بڑوں کے سکھائیں ہوئے ہیں۔ایسے نادانوں پرہنسنے کوبھی دل کررہا ہے اور تعجب بھی ہورہاہے، کہ ہم اپنے دین اسلام کو دوملکوں کے پالیسیوں اور نظریات کے نظر کر رہے ہیں،جن کووہ اپنے نصاب میں شان اھلیبیت علیہماالسلام اور حرمین شریفین کانام دیتے  ہین ۔اورنصاب کے یہ جادوئی الفاظ ان نادانوںکے  مزاج پرخوب اثردکھاتی ہے۔اس پرایک شعرذہن میں ارہاہے کہ
                                           دنیاکے ہیںنہ دین کے،دلبرکے ہو گئے 
                                            ہم دل سے کلمہ گوکسی کافر کے ہوگئے
اس کے علاوہ وطن عزیز سمیت تمام مسلم مما لک کی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیاپربھی نظریاتی ویڈیوزاور تحاریر بھی ان نادانوں کے خو ن کوخوب گرمارہی ہیں۔لہذاوطن عزیز سمیت تمام مسلم ممالک کوچاہیے ،کہ کسی ایک ٹھکیدار کی بار بار اتحادی بننے کے ڈرامے کوترک کرتے ہوئے ،دونوں ٹھکیداروں میں ثالثی کرداراداکریں اور انکے باہمی مسائل کوبھرپورطریقے سے حل کریں۔یہ آگ عرب دنیا  سے ہماری طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور یہاں پہنچی تو اسکی شدت یہاں پرکئی گنازیادہ ہوگی کیونکہ ہم جانتے ہیں ،کہ یہاں پڑھے لکھے جاہل،فرقہ پرست اور ذہنی پستی کے مالک لوگوں کے تو کمی ہے نہیں ۔ہمارے ملک میںاسی سال  لاہور سے داعش اور پارہ چنار سے 'حزب اﷲ'اور 'لوائلزینبونؑ' میں شامل ہونے کیلئے جانے والے لوگ بھی اس گندی ٹھکیداری کی ایک کھڑی ہے۔پچھلے چند ماہ سے ہم اس اگ کی تپش و اثرات سانحہ صفورا،سانحہ ہزارہ اورپارہ چنار دھماکوں کے صورت میںبھگت چکے ہیں۔حکومت وقت پربھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وطن عزیزمیں سعودی ایران ٹھکیداری کوفروغ دینے والوں کےلئے کھڑے قوانین بنائیں ورنہ کسان کی طرح ترغیب سوچ کران مرغیوں کوان کے اقاوں کے ہاں چھوڑنے کا بندوبست کرے۔میرے تحریر میں مجھے مرچ اور تیزاب کا ذیادہ استعمال اچھالگتاہے۔ اگرکسی کوہضم نہیں ہورہاوہ بیشک اپنی رائے بلاخوف مجھے سماجی و یبسائٹس پر اپنے اندازسے دے سکتاہے، جیسا اسکا دل کرے ۔کیوں کہ اس قلم کو اٹھانے کی گستاخی کرنے سے پہلے میں اپنی عزت اس قلم کی سیاہی بناچکاہوں۔لہذاایسی گستاخی کی ہمت میں با ربار کرونگا۔ معافی نہیں چاہتا۔
                                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔